روزے کا اصلی ہدف کیا ہے؟

روزے کا اصلی ہدف کیا ہے؟

ایک انسان جب کسی عمل کو انجام دینا چاھتا ھے تو اسے یہ حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ اس عمل کی غرض و غایت، فلسفہ وحکمت اور اسرار سے واقف ھو کیوں کہ اسکی عقل کسی ایسے عمل کو انجام دینے سے منع کرتی ھے جسکی غرض وغایت ا ورحکمت معلوم نہ ھو ۔ حکمت جانے بغیریا تو وہ سرے سے عمل ھی

روزے کا اصلی ہدف کیا ہے؟

ایک انسان جب کسی عمل کو انجام دینا چاھتا ھے تو اسے یہ حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ اس عمل کی غرض و غایت، فلسفہ وحکمت اور اسرار سے واقف ھو کیوں کہ اسکی عقل کسی ایسے عمل کو انجام دینے سے منع کرتی ھے جسکی غرض وغایت ا ورحکمت معلوم نہ ھو ۔ حکمت جانے بغیریا تو وہ سرے سے عمل ھی انجام نھیں دیتا یاپھر کسی جاذبہ اور خوف مثلاً جاذبہٴ بھشت اور خوف عذاب کی بناء پر عمل تو انجام دیتا ھے لیکن اسکے تحت الشعور میں یہ نکتہ بار بار ابھرتا ھے کہ کیا یہ ممکن نھیں تھاکہ اس عمل کو انجام دیے بغیرھی مورد نظرھدف حاصل ھو جاتا اوراس خوف سے نجات مل جاتی ۔در حقیقت اگر انسان کسی عمل کے ا سرار سے واقف نہ ھو تو اسکی دلی تمنّا یہ ھوتی ھے کہ اس عمل کے انجام دئے بغیر ھی اسے بھشت اپنے تمام لوازمات کے ساتھ حاصل ھو جائے اور عذاب جھنّم سے بھی نجات مل جائے۔

یہ بھی ممکن ھے کہ حکم خداکا احترام کرتے ھوئے کوئی کسی عمل کو تعبّداً انجام دے لیکن اس طرح تعبّداً عمل انجام دینے کے لئے بھی شرط ھے کہ عمل کرنے والا ذات خدا کی عمیق معرفت رکھتا ھو ورنہ اسکے تعبّد میں دوام اور تسلسل پیدا نھیں ھو سکتا۔خدا کی معرفت اگرچہ انسان کے لئے باعث بنتی ھے کہ وہ احکام الٰھی کی تعمیل کرے تاکہ حرمت الٰھی ٹوٹنے نہ پائے لیکن اگر خود عمل پر نظر کریں تو جب تک اسکا فلسفہ اور راز معلوم نہ ھو وہ فقط ایک بے کیف ،بے جان اور بے روح عمل ھوتا ھے ۔انسان تعبّداً ایک عمل کو انجا م ضرور دے لیتا ھے لیکن اس عمل کے ثمرات اور اثرات سے محروم رھتا ھے ۔

یہ نکتہ انسان کے لئے بھت اھم ھے کہ جب وہ کسی عمل کو انجام دے رھا ھو مثلاًنماز پڑھ رھا ھو ،روزہ رکہ رھا ھو،انفاق کر رھا ھو ،حج،جھاد،امرباالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم فرائض کو انجام دے رھا ھو تو وہ ان اعمال کے اثرات،ثمرات اور برکات سے بھی واقف ھو۔وہ یہ جانتا ھو کہ یہ عمل مثلاً نماز اگر اپنے اسرار کے ساتھ پڑھی جائے تو یہ اسکی زندگی میں کتنا بڑا تحوّل وتغیر ایجاد کر سکتی ھے۔ اسرار سے واقفیت انسان کے اندر تحریک ایجاد کرتی ھے اور اس کی ھمّت کو بلند کر دیتی ھے ،پھر وہ کسی بھی حال میں اس عمل کو ترک کرنے پر راضی نھیں ھوتا کیونکہ وہ اس کے ثمرات سے محروم نھیں ھونا چاھتا۔

امام علیعلیہ السلام فرماتے ھیں :

”قَدرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ ھِمَّتِہ “(۱)

انسان کی قدروقیمت اور اسکی شناخت خوداسکی ھمتوں کے ذریعے کی جاسکتی ھے ۔ وہ جتنی بلند ھمّت کرتا ھے اتنا ھی بڑا اور قیمتی انسان ھوتا ھے۔ چھوٹے،معمولی اور پست انسانوں کی ھمّتیں بھی چھوٹی اور پست ھوتی ھیں ،جو نہ صرف یہ کہ بڑی ھمّتیں نھیں کر سکتے بلکہ اگر اسکا تذکرہ بھی سنتے ھیں تو خوفزدہ ھو جاتے ھیں اوراپنے دل میں تنگی کا احساس کرنے لگتے ھیں مثلاًبعض افراد اتنے کم ھمّت ھوتے ھیں کہ وہ روزہ رکھنے کی ھمّت ھی نھیں کر پاتے،بعض ھمّت تو کر لیتے ھیں لیکن اگر صبح میں ارادہ کرتے ھیں تو شام میں ٹوٹ جاتا ھے،اور اگر شام میں ارادہ کرتے ھیں تو سحر تک ٹوٹ جاتاھے۔

بعض افراد تھوڑی بلندھمت کرتے ھیں اور روزہ رکہ لیتے ھیں لیکن ذرا سا حلق میں خشکی کا احساس ھوتا ھے اور انھیں یہ فکر لاحق ھوجاتی ھے کہ کسی طرح کوئی ایسا بھانہ ھاتہ آجائے جسکی وجہ سے یہ روزہ توڑاجاسکے ، خواہ وہ حلق کی خشکی سحر کے وقت زیادہ کھا لینے یا زیادہ دیر تک سو لینے کی وجہ سے ھی کیوں نہ ھو ۔

بعض دیگر افراد ذرااورھمت بلند کرتے ھیں اور اپنا روزہ کامل کر لیتے ھیں لیکن دو چار روزے گزرنے کے بعد ھمّت ھار جاتے ھیں ،بعض افراد سردیوں کے موسم کو دیکہ کر اپنی ھمّت کو بلندکرتے ھیں اور پورے مھینے کا روزہ رکہ لیتے ھیں ،لیکن گرمیوں میں ھمّت جواب دے جاتی ھے ،ایسی ھمّت رکھنے والے انسان کو ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا۔کم سے کم امام علی علیہ السلام کی نظرمیں یہ ایک کم ھمّت انسان ھوگا کیوں کہ آپ(ع) کو گرمیوں کے روزے زیادہ عزیزتھے۔

ایک انسان مزید ھمّت کرتا ھے اور اپنے اوپر فرض تمام روزوں کو گرمی وسردی کی پرواہ کئے بغیر رکھتا ھے لیکن روزے کے آداب واسرار سے بے خبر ھوتاھے ،اسکی قسمت میں بھی بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں آتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:کَم مِن صَائِمٍ لَیسَ لَہ مِنْ صِیَامِھٖ اِلّا الْجُوع وَالظَّمَاء۔ ۔ ۔ ۔ `(۲) کتنے روزہ دار ایسے ھیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نھیں ملتا‘۔

ایک انسان آداب روزہ کی بھی رعایت توکرتا ھے لیکن اسرار روزہ سے باخبر نھیں ھے لھٰذا اسے بھی ایک بلند ھمّت انسان نھیں کھا جا سکتا،اگرچہ اس کی ھمّت دوسروں کی بہ نسبت کافی بلند ھے لیکن اسکی زندگی روزہ کے اثرات و ثمرات سے بے بھرہ ھے۔ اسکے نصیب میں فقط روزہ کاثواب آتا ھے،اسے جنّت توضرور مل جاتی ھے لیکن خدا نھیں ملتا،اس کی زندگی پر روزے کا کوئی اثر نھیں ھوتا لھٰذاجس طرح ایک نمازی مسجد سے نکل کر فحشاء ومنکر کا مرتکب ھوتا ھے اور اپنے آپ کو طرح طرح کی برائیوں سے آلودہ کر لیتا ھے ،کیوں کہ وہ نماز کے اسرار سے واقف نھیں ھے اور نماز اس کی زندگی پر کوئی اثر نھیں ڈالتی اسی طرح یہ روزہ د ار بھی ماہ رمضان کے بعد یا ممکن ھے خود روزہ ھی کی حالت میں بڑے سے بڑے فردی یا اجتماعی جرم و گناہ کا مرتکب ھو اور اس کی پرواہ بھی نہ کرے کیونکہ وہ فلسفہٴ روزہ سے بے خبر ھے اور اس نے اسرار روزہ کو درک کرنے کی کوشش نھیں کی ،حتیٰ ممکن ھے وہ شب قدر میں بھی کسی بڑے جرم یا خیانت کا مرتکب ھو جائے کیوں کہ وہ اسرار شب قدرسے بے خبرتھا۔

رمضان کے باب میں ایک بلند ھمّت انسان وہ ھے جو روزے کو اسکے آداب اور اسرار کے ساتھ رکھے لیکن یہ آخری حد نھیں ھے ،مقام انسان اتنا بلند ھے کہ اس کی کوئی حد معیّن نھیں کی گئی ھے، و ہ اس سے بھی زیادہ اپنی ھمّت کوبلندکر سکتا ھے اور وہ اس طرح کہ روزے کو اسکے پورے آداب و اسرار کے ساتھ کامل کرے اور جب افطارکاوقت آئے تو اپنی افطارکی روٹیاں فقیر کو دے کر پانی پر اکتفاکر لے اور یہ عمل تین دنوں تک جاری رھے ----”و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا“ (۳)یھاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس عمل میں ایک غیر معصوم کنیز(فضّھ) بھی شریک ھے جو اس بات کی علامت ھے کہ ایک غیر معصوم انسان بھی اپنے آپ کو ایسے بلند مقام تک پھونچا سکتا ھے جھاں وہ ایک ایسا عمل انجام دے جو معصوم کے لئے بھی فضیلت شمار کیا جاتا ھو۔یہ کسی بھی انسان کے لئے ایک بھت بڑا مقام ھے اور اس اطعام کی لذّت ان روٹیوں کے کھانے سے کھیں زیادہ ھے ۔

ای میل کریں