لیا ہے تجھ سے جام مے تو کچھ گناہ بھی نہیں
تری گلی کو چھوڑ کر کہیں پناہ بھی نہیں
در امید ہر طرف سے بند ہے مرے لیے
سوائے میکدہ کوئی امید راہ بھی نہیں
تری شراب عشق سے کیے ہیں جس نے تازہ لب
نظر میں اس کی دو جہاں مثال کاہ بھی نہیں
تو دیکھ بزم رند پر بس اک نگاہ ڈال کے
وہاں تری نگاہ جیسی اگ نگاہ بھی نہیں
فدامیں اس صنم پہ ہوں نظر میں جس کی معتبر
نہ ہستی اور نہ نیستی غلام و شاہ بھی نہیں
تو صاحب نظر ہے، لطف کر کہ میں مریض ہوں
مریض ، جس میں کچھ سوائے درد و آہ بھی نہیں
میں عاشق قدیم ہجر یار سے ہوں سوختہ
بس اک فسردہ دل ہے، دوسرا گواہ بھی نہیں