عشرہ فجر کی اصطلاح اور اس کے معنی
عشرہ فجر کی اصطلاح سورہ مبارکہ فجر کی ابتدائی آیات سے الہام لیتے ہوئے ۱۲ سے ۲۲ بہمن کی مدت کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ ’’فجر‘‘ کا اصل معنی وسیع پیمانے پر پھاڑنا ہے؛ چونکہ صبح کا نور رات کی تاریکی کو پھاڑ ڈالتا ہے، اس لیے اسے فجر کہا جاتا ہے۔بعض نے اس آیت میں فجر کے مطلق معنی یعنی’’صبح کی سفیدی‘‘ کو مراد لیا ہے جو مسلمہ طور پر خدا کی عظمت کی ایک نشانی ہے۔ یہ انسانوں اور تمام زمینی مخلوقات کی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے، نور کی حاکمیت کا آغاز اور ظلمت کا اختتام ہے۔ زندہ موجودات کی حرکت کا آغاز اور نیند اور سکوت کا اختتام ہے اور اس بھرپور زندگی کے باعث خدا نے اس کی قسم کھائی ہے
لہٰذا زمانہ جاہلیت کی تاریکی میں اسلام اور محمدیؐ نور کی ضو فشانی فجر کا ایک مصداق ہے اور اسی طرح دنیا کے تاریکی و ظلم میں غرق ہو جانے کے بعد امام مہدیؑ کے قیام کی روشن صبح اس کا ایک اور مصداق شمار ہوتی ہے۔ فجر کا ایک نمایاں مصداق امام حسینؑ کا کربلا کے خونی صحرا میں عاشور کے دن کا قیام تھا کہ جس نے بنو امیہ کے ظلم و ستم کے تاریک پردوں کو چاک کیا اور ان شیطانوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے برملا کر دیا۔ اسی طرح کفر، جہالت اور ظلم و ستم کے خلاف برسرپیکار تمام انقلاب جو ماضی اور حال میں رونما ہوئے؛ حتی گنہگاروں کے تاریک دلوں میں پیدا ہونے والی بیداری کی پہلی چنگاری جو انہیں توبہ کی دعوت دیتی ہے؛ بھی فجر کے مصداق ہیں۔ اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عصر حاضر میں فجر کا ایک نمایاں ترین مصداق ایران کا اسلامی انقلاب ہے۔ عشرہ فجر کی اصطلاح قرآن کی نورانی آیات سے الہام لیتے ہوئے سنہ ۱۳۶۰ شمسی کو ارشاد اسلامی کے وزیر حجۃ الاسلام عبد المجید معادی خواہ کی تجویز پر امام خمینیؒ کی ۱۲ بھمن کو وطن واپسی کے دن سے ۲۲ بھمن کے ایام کیلئے مختص کی گئی۔
امام خمینیؒ کی آمد اور انقلاب کی کامیابی
امام خمینیؒ نے تمام رکاوٹوں کے باوجود ۱۲ بھمن ۱۳۵۷شمسی کو مہرآباد ائیرپورٹ پر اپنے قدم رکھے اور ۳۳ کلومیٹر کے علاقے پر موجود عوام کے سمندر نے آپ کا بے نظیر استقبال کیا۔ پھر آپ بہشت زہرا تشریف لے گئے اور مکمل عزم و یقین کے ساتھ اپنا موقف بیان کر کے حکومت کے سازشی عناصر کی تمام چالوں کو ناکام کر دیا۔
امام خمینیؒ کی ایران آمد سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک کے مختصر عرصے میں ملک کے اندر عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں جو اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتہی ہوئیں اور بعد میں اسے عشرہ فجر کا نام دیا گیا۔ اس مختصر دورانیے میں امام خمینیؒ نے نگران حکومت بھی تشکیل دے دی۔
ایرانی قوم کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے حکومت کا آخری حربہ مارشل لا کا نفاذ اور شب خون مارنا تھا۔ پہلوی حکومت کے کٹھ پتلی وزیراعظم بختیار نے امریکی حمایت اور ایک عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے انقلاب کو ختم کرنے کی کوشش کی اور وہ اپنی حکومت کو قانونی ظاہر کر کے عوامی انقلاب کے شعلوں کو خاموش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے امامؒ کی پیرس سے واپسی کی مخالفت کی اور پورے ملک کے ائیرپورٹ بند کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
تاہم فوجی حکومت کو اہمیت نہ دینے پر مبنی امام کے تاریخی حکم نے حکومتی سازش کو ناکام کر دیا۔ اس اعلان کے بعد عوام نے فوجی حکومت کو گرا دیا اور لوگوں نے سڑکوں پر مورچے قائم کر لیے کہ جس کی وجہ سے منحرف فوجی دستوں کے گشت کا سلسلہ بند ہو گیا۔ اس موقع پر حکومتی باقیات کے ساتھ عوام کا مسلحانہ مقابلہ شروع ہو گیا۔ مختصر مدت میں انقلابی قوتوں نے فوجی ہیڈکوارٹر، وزیراعظم ہاؤس اور دیگر اہم دفاتر کا گھیراؤ کر لیا جبکہ دوسری طرف فوجی سپاہی جوق در جوق عوام کے ساتھ ملحق ہوتے چلے گئے۔
آخرکار وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا کہ جب ۲۲ بھمن ۱۳۵۷شمسی کو شہنشاہیت کا ۲۵۰۰ سالہ بوسیدہ نظام ساقط ہو گیا اور امام خمینیؒ کی قیادت میں عوام کی پندرہ سالہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور ایران میں عظیم اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا۔