آئی چمن سے بوئے گل بستر ہے واں کیا یار کا
جیسے کہ کوئی جشن ہے گلزار میں دلدار کا
جس سمت سے گزرے گا تو، جس بزم کو دیکھے گا تو
با صد زباں، با صد بیاں، غوغا ہے ذکر یار کا
وہ سرو دل آرا مرا وہ روح جاں افزا مری
سایہ میں اس کے بیٹھ، یہ سایہ ہے لطف یار کا
یہ قفل سارے توڑ دے، قید قفس کو چھوڑ دے
انجام کو آغاز کر، چرچا جہاں ہے یار کا
ان تیلیوں کو توڑدے، غم سے ٹرپنا چھوڑ دے
آوارہ ہو، آوارہ کر، ہستی ہے غم بیکار کا
کر ترک اس ارقام کو، دل سے نکال اوہام کو
ساقی سے لے اس جام کو '' لا'' جس میں ہے انکار کا