یہ قافلے، ازل سے جو تا ابد، رواں ہیں
تیری طرف رواں تھے، تیری طرف دواں ہیں
ہیں تیرے عشق میں سب گشتہ اور حیراں
یہ دل جلے، جاں ہیں، بے تاب و بے تواں ہیں
پردہ ذرا اٹھا دے، چہرہ ذرا دکھا دے
کھل جائیں ہر نظر پر اسرار جو نہاں ہیں
اے پردہ دار! شوق دیدار رخ میں تیرے
دلباختہ ہیں جانیں، دل ہیں کہ بے اماں ہیں
ہیں رند میکدے میں سرمست یاد تیرے
اور بتکدے میں حیراں سب پیر اور جواں ہیں
اے دوست! میرے دل کو اپنا ہدف بنا لے