کہو گلرخوں سے ہم اہل عشق ہیں ، بے دل و غم اسیر ہیں
کریں دستگیری بیدلاں ، نگہ کرم کے فقیر ہیں
کسے جا دکھائیں یہ درد دل، کہیں اور جس کی دوا نہیں
تو ہی اپنا دست کرم بڑھا کہ جو موت آئے تو میر ہیں
تو ہماری بزم میں آکبھی، کبھی دل پہ تیر نظر چلا
کبھی دیکھ آکے غلط روی، کہ ہم آب و گل سے خمیر ہیں
ہمیں تاجران اجل تو ہیں ، ہمیں یار گلبن و برگ کے
وہ جو رند ہیں نہ برہنہ پا؟ وہ ہمارے دل کے بصیر ہیں
وہ جو مے فروش ہیں پاک ہیں ، وہی دل خروش ہیں مست ہیں
وہی بند گوشی و نظر کیے، وہی پیر پاک ضمیر ہیں
اٹھا سامنے سے یہ جام مے، نہ لے نام جم نہ لے نام کے
یہ تو زادہ مہ و سال ہیں ، یہ ہماری طرح اسیر ہیں