قصہ کوتاہ، یار آیا
با گیسوئے مشک بار آیا
در کھول دیا، نقاب الٹی
بے پردہ، وہ دیکھو، یار آیا
کوئی نہ تھا ساتھ، اکیلا آیا
یکتا ؤ غریب وار آیا
در غیروں پہ بند کر کے بیٹھا
یعنی پے یار غار آیا
میں کھو گیا اسکے حسن رخ میں
وہ جلوہ گر از کنار آیا
پردے کو اٹھا کر کے درمیاں سے
تا بر سر مے گسار آیا
صبح شب قدر کے عقب میں
خورشید رخ آشکار آیا
شمعوں کو بجھا سحر ہوئی ہے
خورشید جہاں مدار آیا
رکھ دے یہ قلم، ہٹا یہ دفتر
قصہ کوتاہ، یار آیا