فصل گل آئی، غم دل اور افزوں ہوگیا
درد جاں افزوں ہوا اور دل مرا خوں ہوگیا
کاروان عاشقاں تو جانب منزل گیا
حال دل میرا، سمجھ لو کیا ہوا، کیوں ہوگیا
ہجر گل بلبل کو ہے اور ہجر بلبل گل کو ہے
عشق کا اپنے، ہر اک، گلشن میں مفتوں ہوگیا
روئے دلبر سے صبا نے پردہ سر کایا ہی تھا
ہیں ہی کیا؟ جس نے نظر ڈالی وہ مجنون ہوگیا
چشم گرم مہر سے سب زردی و سردی گئی
گلستاں سرسبز، بستاں گرم و گلگوں ہوگیا
موسم گل آگیا، آئی بہار گلعذار
سب خمار، اے میکشان عشق! بیروں ہوگیا