دوست فریادی ہے، اس کا راز دل افشا ہوا
بزم رنداں میں وہ آخر کس طرح رسوا ہوا
میں نے چاہا راز دل میرا رہے بس میرے پاس
در کا میخانے کے کھلنا تھا کہ یہ غوغا ہوا
میکدے میں یار آیا ہے، سر خم کھول دو
مژدہ باد اے میکدہ! عیش ازل بر پا ہوا
ناز ہے مجھ کو کہ تونے زلف کو جھٹکا جونہی
ذرہ خورشید اور جو قطرہ تھا وہ دریا ہوا
تونے لب کھولے، لیا ساغر، ہوا سرمست مے
سامنے ساقی کے سب راز جہاں افشا ہوا
کوچہ میخانہ سے شاید کبھی گرزے مسیح
ورنہ رتبہ پیش حق کیوں اس قدر بالا ہوا
عشق کا اعجاز جانے ہے زلیخا، تو نہیں
کیوں نظر میں اس کی یوسف اس قدر زیبا ہوا