امام حسین علیہ السلام کے چہلم نے اسلامی دنیا میں بیداری پیدا کی ہے
امام حسین علیہ السلام کی سربراہی میں شروع ہونے والی حسینی تحریک کا ایک اہم پہلو بیداری اور احیاء پر مبنی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد پانچ دہائیاں گزر جانے کے بعد حقیقی محمدی (ص) اسلام کو دوبارہ اجاگر کرنا تھا۔ روز عاشور اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تاریخی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا قیام ثمربخش واقع ہوا اور اس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں بیداری کی عظیم لہر معرض وجود میں آئی جس نے طاغوتی حکومتوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ واقعہ کربلا کا بیداری کا یہ پہلو ختم نہیں ہوا اور آج تک باقی ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے واقعہ کربلا کی یاد زندہ رکھنے پر بے حد تاکید اور ہر سال اس کی یاد منانے پر زور کی وجہ بھی اسلامی معاشروں میں جہاد کا جذبہ اور شوق شہادت زندہ رکھنا تھا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ بھی یہی تھا کہ انہوں نے اس عظیم روحانی ذخیرے کو موجودہ حالات سے تطبیق دی اور ہمارے زمانے میں ظلم و ستم کی عمارت کا خاتمہ کیا۔ دوسرے الفاظ میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بیداری کی تحریک کا احیاء کیا اور اسے نیا معنی عطا کیا۔
حسینی تحریک میں چہلم امام حسین علیہ السلام کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جیسا کہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای فرماتے ہیں: "امام حسین علیہ السلام سے محبت کا پہلا چشمہ چہلم کے دن جاری ہوا۔ اس طاقتور حسینی مقناطیس نے سب سے پہلے چہلم کے دن دلوں کو اپنی طرف کھینچا۔ جابر بن عبداللہ انصاری اور عطیہ کا چہلم کے دن امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے جانا اس بابرکت رسم کا آغاز تھا جو صدیوں سے چلتی ہوئی آج ہر زمانے سے زیادہ عظیم، پررونق، پرشکوہ اور مقبول ہو چکی ہے۔ اس عظیم رسم نے دنیا میں روز بروز عاشورا کی یاد مزید زندہ کر دی ہے۔" چہلم اپنی ذات میں عاشورا کی جانب دوبارہ پلٹنے کا نام ہے۔ مشہور ہے کہ اہلبیت اطہار علیہم السلام شام میں یزید کی قید سے رہائی پانے کے بعد چہلم کے دن ہی کربلا میں داخل ہوئے۔ روایات کی روشنی میں زیارت اربعین مومن کی علامات میں سے ایک علامت قرار دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ شاید اس نکتے کی یاددہانی ہو کہ مومن کو چاہئے کہ وہ کربلا کو اپنی زندگی کا راستہ قرار دے اور اپنی زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی مرکز کے گرد منظم کرے۔ اسی طرح ایمانی معاشرہ بھی کربلا کے خورشید کی جانب متوجہ ہو اور چہلم درحقیقت اسی خورشید تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
چہلم سید الشہداء علیہ السلام کی مناسبت سے زیارت کیلئے کربلا پیدل جانے کی رسم عراق میں صدیوں سے جاری تھی۔ صدام حسین کی ڈکٹیٹر حکومت نے شیعہ مسلمانوں پر بہت زیادہ سختی کی اور اس رسم کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس کے باوجود امام حسین علیہ السلام کے عاشق اور عقیدت مند خفیہ طور پر راتوں کو غیر معروف راستوں سے مشی کی رسم ادا کرتے رہے۔ صدام حسین کی سرنگونی کے بعد جب رکاوٹیں ختم ہوئیں تو چہلم کی زیارت کیلئے پیدل قافلوں کا سلسلہ زور و شور سے شروع ہو گیا۔ اب یہ عظیم عمل صرف عراق کی جغرافیائی حدود تک محدود نہیں رہا بلکہ پوری دنیا سے محبین اہلبیت علیہم السلام چہلم کی زیارت کیلئے کربلا پیدل جانے کی غرض سے اس موقع پر عراق کا سفر کرتے ہیں۔ کربلا کی جانب گامزن اس عظیم انسانی سیلابی ریلے میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چہلم امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے انجام پانے والی یہ عظیم ریلی دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع قرار دیا جا سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن دنوں عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور انہوں نے زائرین امام حسین علیہ السلام کیلئے رکاوٹیں بھی کھڑی کیں تب بھی یہ مشی رکی نہیں۔
آج چہلم امام حسین علیہ السلام پر کربلا پیدل جانے کی روایت صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شرکت کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک مکمل عوامی اجتماع ہوتا ہے جس میں شریک افراد روحانی جذبے کے تحت امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ آج چہلم سید الشہداء علیہ السلام کا پیدل مارچ مستضعفین جہان کی بیداری کی علامت بن چکا ہے۔ ایسی بیداری جو حقیقی محمدی (ص) اسلام کی عظیم اٹھان کا پیش خیمہ ثابت ہو گی اور اس کا نتیجہ بنی نوع انسان کی طاغوتی قوتوں سے آزادی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔