لوگوں کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کا طرز سلوک
مرحوم شيخ طوسى رضوان اللّہ تعالى عليہ اپنی کتاب "الرجال" لکھتے ہیں:ایک روز امام رضا علیہ السلام کی اصحاب کا ایک گروہ آپ (ع) کے گھر میں اکٹھے ہوئے تھے اور یونس بن عبدالرحمن بھی حاضر تھے جو امام (ع) کے معتمد اور اہم و بلندمرتبہ انسان تھے۔
وہ آپس میں بات چیت کررہے تھے کہ اتنے میں اہل بصرہ میں سے ایک گروہ نے داخلے کی اجازت مانگی۔
امام علیہ السلام نے یونس سے فرمایا: فلان کمرے میں جائیں اور یادرکھیں کہ کوئی بھی رد عمل ظاہر نہ کریں؛ مگر یہ کہ آپ کو اجازت ملے۔ اس کے بعد امام (ع) نے بصریوں کو داخل ہونے کی اجازت دی وہ داخل ہوئے تو یونس بن عبدالرحمن کے خلاف چغل خوری میں لگ گئے اور ان کی بدگوئی کرتے ہوئے انہیں برا بھلا کہنے لگے۔امام (ع) اپنا سر مبارک جھکا کر بیٹھے تھے اور بالکل خاموش تھے حتی کہ بصری اٹھ کر چلے گئے اور اس کے بعد آپ (ع) نے یونس بن عبدالرحمن کو باہر آنے کی اجازت دی۔
یونس غم و حزن اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ امام علیہ السلام پر وارد ہوئے اور عرض کیا: یابن رسول اللہ (ص)! میں آپ پر فدا ہوجاؤں میں ان لوگوں کے ساتھ میری معاشرت ہے جبکہ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کریں گے اور مجھ پر اس طرح کے الزامات لگائیں گے۔
امام علیہ السلام نے لطف بھرے لب و لہجے میں یونس بن عبدالرحمن سے فرمایا: اے یونس! غمگین نہ ہوں۔ لوگوں کو یہ سب کہنے دیں اور جان لیں کہ ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب آپ کا امام آپ سے راضی و خوشنود ہو فکرمندی کی کوئی بات نہیں ہے۔
اے يونس! ہمیشہ لوگوں کے ساتھ ان کی معرفت و دانائی کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بات کرنے اور ان کے لئے ان کی معرفت و دانائی کی حدود میں معارف الہی بیان کرنے کی کوشش کریں اور ایسی باتیں بیان کرنے سے پرہیز کریں جو ان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔
اے یونس! جب آپ کے ہاتھ میں ایک نہایت قیمتی گوہر ہو اور لوگ کہہ دیں کہ یہ پتھر یا ڈھیلا ہے تو اس طرح کی باتیں آپ کے اعتقادات اور افکار میں کتنی حد تک مؤثر ہونگی؟ اور کیا لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے آپ کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچتا ہے؟
یونس کو امام (ع) کے کلام سے سکون ملا اور عرض کیا: نہیں ان کی باتیں میرے لئے ہرگز اہمیت نہیں رکھتیں۔
امام علیہ السلام نے ایک بار پھر یونس بن عبدالرحمن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اسی طرح جب آپ نے اپنے امام کی معرفت حاصل کی ہو اور جب آپ نے حقیقت کا ادراک کیا ہو تو لوگوں کے افکار اور ان کی باتیں آپ کے اوپر ہرگز اثرانداز نہیں ہونی چاہئیں لوگ جو بھی چاہیں بولیں۔
اگر توبہ کریں تو نجات پائیں گے؟
بعض روايات میں منقول ہے:
ایک دن ایک منافق نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: آپ کے بعض شیعہ اور دوست مست کرنے والے مشروبات استعمال کرتے ہیں!؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا شکر کہ وہ جس حال میں بھی ہوں ہدایت یافتہ ہیں اور ان کے عقائد صحیح اور صراط مستقیم پر استوار ہیں۔
اسی وقت بیٹھک میں موجود دوسرے منافق نے کہا: آپ کے بعض شیعہ نبیذ پیتے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ (ص) کے بعض اصحاب بھی ایسا ہی کرتے تھے۔منافق نے کہا: نبیذ سے میری مراد شہد کا شربت نہیں بلکہ میری مراد نشہ آور شراب ہے۔
یہ بات سن کر امام (ع) کے چہرہ مبارک سے پسینہ چھوٹا اور فرمایا: خداوند متعال اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے مؤمن بندے کے دل میں ہماری محبت بھی رکھے اور شراب کی محبت بھی اس کے دل میں ہو اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوگا کہ ایک مؤمن بندے کے دل میں ہماری محبت بھی ہو اور وہ شراب سے بھی محبت کرے
امام (ع) قدری خاموش رہے اور فرمایا: اگر کوئی اس فعل کا ارتکاب کرے اور اس سے محبت نہ رکھتا ہو او اپنے فعل سے نادم ہوجائے تو وہ روز قیامت خدائے مہربان و ہمدرد، رؤف و عطوف اور رحمدل پیغمبر (ص) اور حوض کوثر کے کنارے موجود امام و رہبر کے پاس حاضر ہوگا اور دیگر بزرگ ہستیوں کے پاس جو اس کی نجات و شفاعت کے لئے آئیں گے لیکن تم اور تمہاری طرح کے لوگ برہوت کے دردناک اور جلادینے والے عذاب میں گرفتار ہونگے۔
ختم قرآن يا قرآن میں تفکر و تدبر
مرحوم شیخ صدوق، طبرسى اور دیگر بزرگوں نے ابراہیم بن عباس کے حوالے سے حکایت کی ہے کہ:
جتنا عرصہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں گذارا اور میں نے امام کی محفلوں اور مجلسوں میں شرکت کی میں نے دیکھا کہ امام علیہ السلام ہر سوال کا بہترین، زیباترین اور فصیح ترین جواب دیا کرتے تھے اور تمام علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے اور آپ (ع) کا جواب قائل و مطمئن کردینے والا ہوتا تھا۔
مأمون بھی ہر موقع و مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امام (ع) سے پیچیدہ سوالات پوچھ لیتا تھا مگر امام علیہ السلام کبھی بھی جواب دینے سے عاجز نہیں ہوئے۔
امام (ع) کے تمام جوابات قرآن مجید کی آیات سے مستند ہوا کرتے تھے اور ساتھ ہی امام (ع) تین دن میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ "اگر چاہوں تو اس سے کم مدت میں بھی ختم قرآن کرسکتا ہوں لیکن میں تلاوت کرتے وقت ہر آیت میں تدبر و تأمل بھی کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آیت کس موضوع میں کس واقعے کی مناسبت سے اور کب نازل ہوئی ہے اور تدبر و تأمل کے سوا کسی بھی آیت سے نہیں گذرتا چنانچہ ختم قرآن تین روز میں ممکن ہوجاتا ہے۔
قیامت اور سوال و جواب اہم ترین نعمت
مرحوم شيخ صدوق بحوالۂ حاكم بيہقى نقل كرتے ہیں:
ایک روز حضرت علىّ بن موسى الرّضا عليہما السلام نے فرمایا: دنیا میں کوئی بھی حقیقی نعمت نہیں ہے۔
مجلس میں موجود بعض اہل دانش نے عرض کیا: یابن رسول اللہ (ص)! قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لتسئلنّ يومئذٍ عن النّعيم (پھر تم سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور بضرور جواب طلب ہو گا)۔ جس میں "نعیم" سے مراد ٹھنڈا اور لذیذ پانی ہے، آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
امام علیہ السلام نے اونچی آواز میں ارشاد فرمایا: آپ نے اس کی یوں تفسیر کی ہے ـ اور آپ لوگوں میں سے بعض نے بعض دوسروں کے لئے بھی بیان کیا ہے ـ کہ گویا اس سے مراد لذیذ طعام ہے اور بعض نے اسے میٹھی اور آرام بخش نیند سے تعبیر کیا ہے۔
بتحقیق کہ میرے والد نے اپنے والد امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (امام صادق (ع)) نے فرمایا: خداوند متعال نے اپنے بندوں کو بعض نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور یہ سب نعمتیں خدا کے تفضل اور خدا کے لطف کا نتیجہ تھیں تا کہ بندگان خدا ان سے استفادہ کریں اور ان سے بہرہ مند ہوں اور خداوند متعال نعمتوں کے حوالے سے کسی سے سوال نہیں کرتا اور ان پر احسان بھی نہیں جتاتا کیونکہ لطف و مہربانی کے عوض کسی پر احسان جتانا، بھونڈا اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ لہذا:قرآن مجید کی آیت مبارکہ کا مطلب ہم اہل بیت رسول اللہ (ص) کی ولایت و محبت ہے جس کے حوالے سے روز قیامت خداوند متعال ـ توحید و یکتا پرستی اور رسول اکرم (ص) رسالت و نبوت کے بعد ـ ہم ائمہ اہل بیت (ع) کی ولایت و امامت کے بارے میں بھی سوال فرمائے گا۔
اور اگر انسان ان سوالات کا جواب دے سکے اور سوال دینے سے عاجز نہ آئے تو جنت میں وارد ہوگا اور اس کی دائمی اور ابدی نعمتوں سے بہرہ مند ہوگا ایسی نعمتوں سے بہرہ مند ہوگا جو باسی اور فاسد نہیں ہوتیں اور زائل ہونے والی نہیں ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے اپنی بزرگوار آباء و اجداد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی! سب سے پہلی چیز جس کے بارے میں موت کے بعد سوال کیا جائے گا خدائے سبحان کی وحدانیت و یکتائی اور میری نبوت و رسالت ہے جس کے بعد آپ اور آپ کے فرزندوں کی ولایت و امامت سے سوال ہوگا اسی کیفیت و ترتیب سے جو اللہ تعالی نے مقرر فرمائی ہے۔ پس اگر انسان صحیح اور کامل طور پر اقرار کرے گا بہشت جاویداں میں داخل ہوگا اور اس کی بےانتہا نعمتوں سے بہرہ مند ہوگا۔