اسم ربّ، تمام خلائق کا نقطۂ آغاز
یہ آیۂ شریفہ اعتبار واحتمال کی نظر سے نظام زندگی کا تعیّن کرتی ہے اور یہ خطاب خود پیغمبر اکرم (ص) کی ذات گرامی سے ہے۔ لیکن قرآن کے تمام خطابات کہ جو رسول اکرم(ص) کی ذات سے تعلّق رکھتے ہیں ، غالباً عام ہیں {اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکِ} (پڑھو اپنے ربّ کے نام سے۔) (سورۂ علق، آیت؍ ۱)۔ جب قرائت کی ابتدا کی جاتی ہے تو یہ آیت خود اس بات کا تعین کرتی ہے کہ قرائت کو کس طرح شروع کرنا چاہیے، یعنی اﷲ کے نام سے۔
وہ تمام قرائت (اور دیگر تمام امور کی ابتدا) کہ جو ’’ اسم ربّ‘‘ سے شروع نہ ہو وہ شیطانی ہے۔ اس بات کے دو پہلو ہیں ایک رحمانی پہلو اور ایک شیطانی پہلو۔ اسم ربّ سے شروع ہونے والی قرائت یعنی نام ربّ سے جس کا آغاز ہو۔ علم کی ابتدا اسم رب سے، قرائت (وتعلیم اور دیگر امور کا آغاز) اسم ربّ سے، دیکھنا ہو تو اسم ربّ کے ساتھ، سننا ہو تو اسم ربّ کے ہمراہ، کہنا ہو تو اسم ربّ کے سائے میں ، تعلیم ہو تو اسم ربّ کے زیر سایہ، یعنی تمام چیزیں اسم ربّ کے ساتھ ساتھ ہوں ۔ اس عالم کی خلقت بھی اسم ربّ سے ہوئی ہے۔ خداوند عالم نے اس عالم کو اپنے نام سے شروع کیا ہے۔ اس عالم کی بنیادیں اسم ربّ کے ساتھ قائم ہیں۔ انسان کہ جو اپنی ذات میں ایک چھوٹا سا سمٹا ہوا عالم ہے لیکن درحقیقت ایک عالم اکبر ہے کو پہلی قرائت اور اولین تعلیم دی گئی اور وہ پہلا لائحہ عمل جو حضرت ختمی مرتبت (ص) کیلئے آیا یہ ہے کہ {اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّک}۔ ایسے ہی قرائت نہ کرو، ایسے ہی تعلیم حاصل نہ کرو، نہ ایسے ہی کسی چیز کی ترویج کرو، نہ ایسے ہی منبر پر جاؤ اور تبلیغ کرو۔ درس پڑھو اور تعلیم حاصل کرو مگر اپنے ربّ کے نام کے ساتھ۔ یہ ایک پورا نظام حیات ہے۔
اگر آپ تبلیغ کریں تو اسم ربّ کے ساتھ، منبر پر جائیں تو اسم ربّ کے ہمراہ، سنیں تو اسم ربّ کے ساتھ، بات کریں تو اسم ربّ کے ساتھ۔ اگر اسم ربّ کو تمام اشیاء سے جدا کردیا جائے تو وہ بے معنی ہوجائیں گی۔ تمام چیزوں کی حقیقت اسم ربّ سے ہے۔ تمام آوازیں خدا کی طرف سے ہیں ۔ ربّ کے نام سے ہی اس عالم نے اپنا آغاز کیا ہے اور اسی کے نام پر اختتام پذیر ہوگا۔ آپ کو بھی چاہیے کہ اسم رب سے اپنے ہر کام کا آغاز کریں اور اسی کے پاک نام پر ختم کریں۔ ہر چیز میں خدا کی علامت ونشانی موجود ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم اسم خدا کا شعور پیدا کریں۔ پورا عالم اسم خدا ہے، آپ سب اسم خدا ہیں، تمام چیزوں نے اسم خدا ہی سے وجود پایا ہے اور آپ سب اسم خدا ہیں۔
ہمیں اس بات کو درک کرنا چاہیے کہ تمام چیزیں اسی کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گی {اِنّٰا ﷲِ وَاِنّٰا اِلَیْہِ راجِعُون} ہم سب اسی سے ہیں اور دیگر تمام موجودات عالم اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے۔ دوسرے کچھ بھی نہیں، وہ سب ہیچ اور پوچ ہیں جو کچھ بھی ہے صرف اسی کی طرف سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس معنیٰ کا ادراک کریں۔ انبیاء (ع) اسی لیے آئے تھے کہ ہمیں ہوشیار کریں اور ہماری تربیت کریں ۔ انبیاء ؑ انسانوں اور ان کی تعمیر ذات کیلئے آئے تھے۔ انبیاء کی کتابیں انسان سازی اور انسانی تعمیر کی کتابیں ہیں، قرآن کریم انسان کی کتاب ہے، علم انبیاء کا موضوع انسان ہے۔ جو کچھ بھی آسمان سے نازل ہوا، کتابیں اور وحی آئی، یہ سب باتیں انسان کیلئے کی گئی ہیں ۔ انسان تمام خوبیوں کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر انسان، انسان نہ بنے تو وہ تمام تاریکیوں کا سرچشمہ قرار پائے گا۔ یہ موجود دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ انسان بننے کا راستہ ہے جبکہ دوسرا راستہ انسانیت سے انحراف کا راستہ ہے کہ اس راستے میں وہ ایک حیوان کی مانند پرورش پائے گا۔ صرف تعلیم دینا، صرف تحصیل علم کرنا، صرف علم فقہ، علم فلسفہ اور علم توحید کا حاصل کرنا اسے فائدہ نہیں دے گا جب تک کہ یہ سب ربّ کے نام کے ہمراہ نہ ہو۔ {اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَق} خداوند عالم نے اس آیۂ مجیدہ میں تمام مخلوقات کی خلقت کو اسم ربّ کی طرف نسبت دی ہے۔اسم ربّ ہی تمام خلائق کا مبدأ اور نقطہ آغاز ہے۔ یہاں خلق کا لفظ ہے یعنی خلق مطلق۔ {اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَق} اگر آپ تعلیم بھی حاصل کریں تو {اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَق} کے ساتھ، اگر بحث ومباحثہ بھی کریں، اسم ربّ کے ہمراہ۔ صرف کام کی ابتدا میں لقلقۂ زبانی سے کام نہ لیں اور {بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم} نہ کہہ دیں ، بلکہ سمجھئے کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟ ہمیں چاہیے کہ سمجھیں کہ اس مسئلہ کی حقیقت کیا ہے۔ انبیاء اسی لیے آئے ہیں کہ ہمیں ، حقائق کو باور کرائیں ، سمجھائیں ۔ ہم حیران وسرگردان ہیں ، تمام عالم سرگردان ہے، کوئی نہیں جانتا کہ حقیقت کیا ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۸، ص ۳۲۴)