انسان سمٹی ہوئی کائنات

انسان سمٹی ہوئی کائنات

اچھی اور بری صفات کو حاصل کرنے کی قابلیت

انسان سمٹی ہوئی کائنات

 

اسلام اور تمام توحیدی مکتبوں  کی آمد کی غایت یہی ہے کہ لوگوں  کو اس قید سے آزادی دلائیں  اور اس زندان سے نجات کا پروانہ دیں  کہ جس میں  ان کے دل قید ہیں  اور جس کی وجہ سے ان کی تمام چیزیں  قید واسارت میں ہیں ۔ اسلام اسی لیے آیا ہے کہ انہیں  اس زندان سے آزادی بخشے۔ یہاں  صرف مادی قید مراد نہیں  ہے کہ ہم دشمن کے غلام ہوں  اور وہ ہمارا تیل نکال کر لے جائے۔ اسلام کا مقصد صرف تیل کی حفاظت نہیں  ہے۔ ہاں ! البتہ اس قدرتی ذخیرے کی حفاظت لازمی ہے۔ اسلام کا مقصد صرف گھر اور اس سے مربوط مسائل نہیں  ہیں ۔ اسلام کا ہدف اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ جس میں  تمام چیزیں  شامل ہیں ، یعنی اسلام جس طرح اس عالم کی مادی جہات اور زاویوں ، حکومتی پہلوؤں  اور عدالتوں  کی طرف توجہ دیتا ہے اسی طرح اس کے روحانی اور معنوی پہلوؤں  کی طرف بھی توجہ رکھتا ہے۔ معنوی پہلوؤں  کی طرف توجہ، مادی پہلوؤں  کی طرف توجہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسلام اپنے دامن میں  تمام چیزوں  کیلئے احکام رکھتا ہے۔ اسلام اور تمام توحیدی مکتب اسی لیے آئے ہیں  کہ مادی وجود رکھنے والے اس انسان (کی تربیت کریں  کہ) جو اپنی زندگی کے آغاز میں  دیگر مادی موجودات کی مانند چند خاص مراحل طے کرنے کے بعد ایک مادی وجود حاصل کرتا ہے اور دیگر حیوانات کی مانند چشم، گوش، حواس اور دیگر خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ الٰہی مذاہب اس لیے آئے ہیں  کہ یہ انسان کہ جس میں  یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ترقی کے تمام مراحل کو طے کرے اور جو تمام کائنات کی ایک سمٹی ہوئی شکل ہے۔ انسان کا یہ چھوٹا سا وجود دراصل تمام کائنات کی مائیکرو فوٹو کاپی ہے، یعنی انسان میں  غیب وشہود کے تمام عالم موجود ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ کچھ بالفعل ہیں  اور کچھ بالقوہ۔

(صحیفہ امام، ج ۱۱، ص ۲۱۹)

 

اچھی اور بری صفات کو حاصل کرنے کی قابلیت

 

انسان کے نفس میں  ایک ملکہ (پختہ عادت) ہے اور وہ ہے ملکہ خیانت۔ دراصل انسان کی مزاج خیانت پیشہ ہے۔ انسان جب پہلے پہلی دنیا میں  قدم رکھتا ہے تو اس میں  تمام چیزوں  اور عادات وصفات کی استعداد وصلاحیت موجود ہوتی ہے، یعنی کوئی بھی عادت وخصلت اس وقت بالفعل موجود نہیں  ہوتی ہے لیکن یہ تمام عادات وصفات اس قابل ہوتی ہیں  کہ وہ نشو ونما پائیں  اور تربیت حاصل کریں ۔ دنیا میں  قدم رکھنے والے بچے میں  نیک صفات کو بھی اور بری عادات کو بھی اپنے اندر جگہ دینے کی قابلیت ہوتی ہے۔

(صحیفہ امام، ج ۷، ص ۴۹۹)

ای میل کریں