تعلیم وتربیت سعادت کے دو پَر ہیں

تعلیم وتربیت سعادت کے دو پَر ہیں

بنابریں، جو چیز اہم ہے وہ زمانۂ طفولیت سے ہی ان نونہالوں کی روح کی پرورش کرنا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ان کی روحانی تربیت کی جائے

تعلیم و تربیت سعادت کے دو پَر ہیں

 

اگر یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات کی توجہ صرف اسی بات پر ہو کہ وہ صرف سبق پڑھائیں ، لیکچر دیں  اور طالب علموں  کو صرف علم دے دیں  تو چنانچہ اگر اس تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہیں  کی جائے اور معنوی اﷲ وہدایت کا سامان نہ ہو تو وہ یہ جان لیں  کہ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد برائی ہی پھیلائیں  گے۔ (البتہ انقلاب اسلامی سے قبل ہماری یونیورسٹیوں  میں  سبق بھی صحیح طرح نہیں  پڑھایا جاتا تھا۔ اگر صحیح طرح تعلیم دی جاتی تو ہم علم ودانش کے قافلے سے اتنے پیچھے نہ ہوتے، اب ہم یہ فرض کرتے ہیں  کہ انقلاب کے بعد، اب حالات انشاء اﷲ اچھے ہیں، پس) اگر مقصد فقط تعلیم دینا ہی ہو اور معنوی تربیت نہ ہو تو پھر یونیورسٹیوں  سے جو لوگ نکلیں گے وہ خرابی ہی پیدا کریں گے، دینی مدارس بھی اسی طرح ہیں ، اگر دینی مدارس اور حوزہ ہائے علمیہ میں  طالب علموں  کی تہذیب نفس کیلئے اقدامات نہ کیے جائیں، ان کے اخلاق کو بہتر بنانے کیلئے کام نہ کیا جائے اور معنوی تعلیم کا کوئی انتظام نہ ہو، یعنی صرف تعلیم دی جائے اور صرف علم ہی سے ان کو مالامال کیا جائے تو وہاں  سے بھی فارغ التحصیل افراد دنیا کو ہلاکت ونابودی سے دوچار کریں  گے۔ پس یہ کہنا چاہیے کہ یہ دو رکن یعنی تعلیم وتربیت ہمیشہ سے ساتھ ساتھ ہیں  اور اگر ایک معاشرے میں ، ایک ادارے میں  یا ایک مدرسے اور یونیورسٹی میں  ان کے طالب علموں  کیلئے ان دونوں  ارکان سے ایک ساتھ استفادہ کیا جائے تو اس وقت ہم یونیورسٹی، دینی مدارس اور معاشرے کے تمام افراد سے ان کی ہر قسم کی علمی سطح اور ان کے تمام تر مراتب علمیہ کے ساتھ ہر وقت مستفیض ہوسکیں  گے۔

بنابریں، جو چیز اہم ہے وہ زمانۂ طفولیت سے ہی ان نونہالوں  کی روح کی پرورش کرنا ہے کہ جہاں  تک ممکن ہو ان کی روحانی تربیت کی جائے اور یہ علمی زیور سے مالامال بھی ہوں ۔ علم اگر ایک آلودہ قلب اور برے خیالات کے حامل ذہن میں  اخلاق کا لبادہ اوڑھ کر وارد ہو تو اس کا ضرر ونقصان نادانی اور سہو کے نتیجے میں  ہونے والے ضرر سے زیادہ ہے۔ صحیح ہے کہ نادانی ایک بڑی چیز کا فقدان ہے لیکن اس میں  نہ تو کسی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کو نابود کیا۔ برخلاف اس چیز کے کہ علم ہو لیکن اخلاق وتہذیب اور انسانی وخدائی خیال وتوجہ کے بغیر، یہ چیز ہے جو انسان کو ہلاکت سے دوچار کرتی ہے۔ انبیاء جس قدر تربیت کیلئے زور دیتے تھے اور لوگوں  کو مہذب اور تہذیب یافتہ بنانے کیلئے جتنی کوششیں  کرتے تھے اتنی سعی علم کیلئے نہیں  کرتے تھے۔ تہذیب نفس کیلئے زیادہ کوششیں  اسی لیے کی جاتی ہیں  کہ اس کا فائدہ اور نفع زیادہ ہے۔ ہاں ! البتہ علم بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جو سب کی توجہ کا مرکز رہی ہے لیکن علم کو تربیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ وہ دو پر ہیں  کہ اگر کوئی قوم چاہے کہ سعادت وخوش بختی کی طرف پرواز کرے تو اسے انہی دو پروں  ’’تعلیم وتربیت‘‘ کے ذریعے ہی پرواز کرنی چاہیے۔ اگر ان میں  سے ایک بھی نہ ہو تو سعادت کی طرف پرواز ناممکن ہے۔

صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۵۰۰

ای میل کریں