یونیورسٹیز اور حوزہ علمیہ کے درمیان اتحاد امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں
یونیورسٹیز اور حوزہ علمیہ کے درمیان اتحاد موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت ہے اور معاشروں کی ترقی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگر کوئی معاشرہ ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیوی اور مادی علوم کے ساتھ ساتھ معنوی اور الہی علوم سے بھی فیضیاب ہو لیکن یونیورسٹیز اور حوزہ علمیہ کے درمیان اتحاد کے بارے میں عام طور پر جو تصور کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم یونیورسٹیز کو حوزہ اور حوزہ کو یونیورسٹیز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ دونوں علوم کو حاصل کیا جائے اور ان پر عمل پیرا ہو کر معاشرہ کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جائے اور دینی اور دنیوی علوم کو انسانی خدمت کے لئے بروئے کار لانا چاہئے اور ایسا نہ ہو تو معاشرے کا وہی حال ہوگا جو اس وقت مغربی معاشرے کا حال ہے۔ یونیورسٹیز اور حوزہ علمیہ کے درمیان اتحاد کے لئے مناسب فضا ایجاد کرنا لازمی ہے یونیورسٹیز میں اسلامی ماحول بنانے کے لئے حوزہ علمیہ اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دشمنان اسلام کی خطرناک سازش جو ہر دور میں رہی ہے اور موجودہ دور میں اسے بہتر انداز میں محسوس کیا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ یونیورسٹیز کو حوزہ علمیہ اور حوزہ علمیہ کو یونیورسٹیز سے دور رکھا جائے جس کے نتیجہ میں دشمنان اسلام اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اگر حقیقت کی نگاہ کی دیکھا جائے تو دشمنان اسلام نے اپنی مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دونوں کو نشانہ بنا رکھا ہے وہ چاہتے ہیں کہ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز کے درمیان جدائی رہے اور یہ ان کی دیرینہ آرزو رہی ہے لہذا اگر حوزہ عملیہ اور یونیورسٹیز کا اتحاد مضبوط ہو جائے تو دشمنان اسلام اپنے مقاصد میں ناکام ہو جائیں گے۔
اگر اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کی بات کی جائے تو امریکہ اور برطانیہ اور کے طرفدار ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ایجاد کیا جائے۔ پہلوی حکومت بھی یہ چاہتی تھی کہ دینی علوم کے طلاب اور یونیورسٹیز کے طلاب کے درمیان اختلاف ایجاد کیا جائے ایسے حساس اور اہم شرائط میں حضرت امام خمینی رحمہ اللہ نے اسلامی سیاستوں کو استعمال کرتے ہوئے آہستہ آہستہ دینی علوم کے طلاب اور یونیورسٹیز کے طلاب کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی۔ حضرت امام خمینی رحمہ اللہ نے ۱۳۴۶ھ،ش میں یورپ میں طلباء کی اسلامی یونین کے خط کے جواب میں دینی علوم کے طلاب اور یونیورسٹیز کے طلاب کے درمیان قربت اور یکجہتی کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا۔
حضرت امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کے اندرونی اور بیرونی پرانے اور جدید طلاب اور روشن خیال ذہنوں کے مالک افراد سیکڑوں سالوں کی نیند سے بیدار ہوئے ہیں جن پر استعمار پسندوں کا غلبہ تھا اور وہ اس کے راہ حل کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور وہ اس مقدس اسلامی تحریک میں مدارس اور یونیورسٹیز کے طلاب کے درمیان اتحاد، تعاون برقرار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے مجھے خوشی اور سربلندی محسوس ہو رہی ہے اور یہ چیز استعمارپسندوں اور مغربی ممالک کے طرفداروں کی ناکامی کا سبب بنے گی۔ نیز امام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حالیہ برسوں میں خداوندمتعال کی مدد سے جو تحریک شروع ہوئی اور اس کے نتیجہ میں علمائے دین اور دوسرے اسکالر کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوئی مجھے امید ہے کہ یہ نور باقی رہے گا اور مغرب و مشرق کے خائنوں اور غداروں نے اقوام عالم کے استعمار کے لئے جو خلاء پیدا کیا ہے وہ تعلیم یافتہ طبقوں کی دنیوی اور ہمہ گیر تحریک کے ذریعہ چاہے وہ علماء ہوں یا یونیورسٹیز کے تعلیم یافتہ افراد بھر جائے گا۔
حضرت امام خمینی رحمہ اللہ نے اس اتحاد کے ابتدائی مراحل میں مکمل نگرانی کے ساتھ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز کے طلاب کو ضروری ہدایات دیں۔ اس سلسلہ میں امام خمینی رحمہ اللہ نے فرمایا: پرانی اور نئی یونیورسٹیز کے نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ متحد ہوکر قوم کے دیگر طبقات کے ساتھ اسلامی اخوت کا رشتہ قائم کریں۔ "واعتصموا بحبل الله جمیعا ولاتفرقوا" قرآن مجید کا یہ مضبوط حکم ہے جسے ہمیں اپنا نصب العین بنانا چاہئے اور تفرقہ و تقسیم سے اجتباب کرنا چاہئے اور خداوندمتعال سے قوم کی نجات طلب کرنا چاہئے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی رحمہ اللہ نے اپنی کاوشوں کو جاری رکھا اور انہوں نے فرمایا: حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز کے عناصر دونوں روشن خیال ہیں اور غیر ملکی استعمار کے پروپگنڈوں اور ان کے داخلی عوامل کو مسترد کرنا چاہئے جو علماء کو متعصب اور یونیورسٹیز میں تعلیم یافتہ افراد کو بے دین قرار دیتے ہوئے ان دونوں طبقات کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
امام خمینی رحمہ اللہ حوزہ کے علماء اور یونیورسٹیز کے طلاب کو معاشرے کے ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہیں اور واضح طور پر کہتے ہیں کہ نہ ہی یونیورسٹی کا طالب علم کسی عالم دین کے بغیر آزادی حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عالم دین یونیورسٹی کے طالب علم کے بغیر۔ اس طریقے سے امام رحمہ اللہ نے حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز کے درمیان اتحاد، ہم آہنگی اور ہم فکری اور اس کے نتائج کو گوشزد کیا ہے۔
امام خمینی رحمہ اللہ نے فرمایا: یونیورسٹیز اور حوزہ علمیہ کو یہ توجہ رکھنی چاہئے کہ یونیورسٹی کو مدرسہ فیضیہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہئے، اور مدرسہ فیضیہ کو بھی اپنا تعلق یونیورسٹی کے ساتھ مضبوط کرنا چاہئے۔ آپ ایسے دو طبقے ہیں کہ اگر آپ کی اصلاح ہوگئی تو اقوام کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر خدانخواستہ آپ کی اصلاح نہ ہوئی یا آپ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگئے تو آپ کا ملک تباہ و برباد ہو جائے گا اور جو طاقتیں اپنے مفادات کھو چکی ہیں وہ میدان میں آ جائیں گی اور وہ اپنی چاہت کے مطابق حکومت کو اقتدار میں لائیں گی نیز وہ حکومت ہماری تمام چیزوں کو ختم کر دے گی۔
امام خمینی رحمہ اللہ نے اپنے الہی و سیاسی وصیت نامہ میں لکھا ہے: میرا مشورہ یہ ہے کہ موجودہ و آئندہ نسل غفلت نہ کرے، یونیورسٹیز کے طلاب اور پیارے نوجوان جتنا ممکن ہو سکے اسلامی علوم کے علماء اور طلاب کے ساتھ دوستی اور افہام و تفہیم کے رشتہ کو مضبوط بنائیں اور وہ غدار دشمن کے منصوبوں اور سازشوں سے بےخبر نہ رہیں اور جیسے ہی وہ دیکھیں کہ کوئی شخص یا افراد اپنے قول و فعل سے ان کے مابین منافقت و تفرقہ کا بیج بو رہا ہے تو اسے رہنمائی اور نصیحت کرنے کی کوشش کریں اور اگر یہ چیز مؤثر واقع نہ ہوئی تو اس سے منہ موڑ لیں اور اسے تنہا چھوڑ دیں اور اسے کوئی سازش کرنے کی اجازت نہ دیں۔