بسیج امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں
بسیج کے معنی عوامی رضا کار فورس کے ہیں۔ اگر ہم انقلاب اسلامی کے لحاظ سے بسیج اور بسیج کے تصور کو تلاش کرنا چاہیں تو ہمارے لئے بسیج اور بسیج کے معنی کو بیان کرنے کے لئے امام خمینی(رہ) کی مراد جاننا ضروری ہے۔ امام خمینی(رہ) کے مطابق بسیج ایک ایسا معاشرتی ادارہ ہے جو متعدد پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ امام خمینی(رہ) کے نظریہ میں بسیج صرف ایک فوجی تنظیم نہیں ہے جو صرف جنگ کے دوران دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تشکیل پاتی ہے بلکہ ایک ایسا وسیع ادارہ ہے جو معاشرے کی بنیادی اور اہم ضروریات کو پورا کرتا ہے اور وہ معاشرے کے دوسرے اجزاء کے ساتھ اس قدر جڑا ہوا ہے کہ اگر اسلامی معاشرے سے اسے جدا کیا جائے تو اسلامی معاشرہ قابل تصور نہیں ہوگا۔ بسیج کو اسی صورت میں ایک جامع ادارہ تسلیم کیا جا سکتا ہے جب اس میں بہت سے اور مستحکم پہلو شامل ہوں۔ اور وہ معاشرے کی بہت سی معاشی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور فوجی ضروریات کو پورا کرے۔
امام خمینی(رہ) نے نہایت بہترین انداز میں فرمایا ہے: بسیج خدا کی مخلص فوج ہے کہ جس کی تشکیل کے رجسٹر پر پہلے سے آخر تک تمام مجاہدین نے دستخط کئے ہیں۔ ماہ آذر کی پانچویں تاریخ امام خمینی(رہ) کے حکم کے مطابق بسیجی تنظیم کے قیام کی تاریخ ہے۔ امام خمینی(رہ) کے مطابق "بسیج" ایک شجرۂ طیبہ اور ایک ایسا درخت ہے جو پھل دار ہے۔ "بسیج" ایک محبت سے لبریز اسکول اور گمنام شہداء کا مکتب ہے۔ امام خمینی(رہ) کے نقطہ نظر سے بسیجی وہ شخص ہے جو عملی طور پر اسلامی نظام کی اقدار، وسعت، پیشرفت اور تحفظ اور مسلم قوم کے وقار کی بقاء میں اپنی دلچسپی ظاہر کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بسیجی ہونے کا ایک معیار ہوتا ہے کہ جس کے مطابق اس کے اراکین کو انقلاب اصولوں اور نظریات سے وابستگی کی سطح پر پرکھا جا سکتا ہے۔
اگر ہم تاریخی اعتبار سے بسیج کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس سلسلہ میں امام خمینی(رہ) کے نقطہ نظر سے بسیج کی تاریخ قوم بنی اسرائیل کی بیداری اور حضرت موسی علیہ السلام کے حکم کے مطابق فرعونی ظلم و ستم کے خلاف اس کے قیام سے آغاز ہوتا ہے اور اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق مکہ کے بت پرستوں اور مالداروں کے ظلم و ستم کے خلاف نادار و غریب اصحاب کے قیام کو بھی بسیجی قیام کہا جاتا ہے۔ نیز ائمہ اطہار علیہم السلام کا قیام اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور سیاسی مسائل کے حل کے لئے ان کی کاوشوں کو بھی بسیج کا نام دیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں تمباکو نوشی کی حرمت کے بارے میں مرحوم میرزا شیرازی کے فتوے کے مطابق برطانوی استعمار کے خلاف لوگوں کی تحریک اور جدوجہد کو بھی بسیجی قیام کہا جا سکتا ہے اسی طرح پہلوی حکومت کے جابرانہ اور ظالمانہ نظام کے خلاف ۱۳۴۲ھ شمسی میں پندرہ خرداد کا قیام اور ۲۲بہمن ۱۳۵۷ھ شمسی کو شاہی حکومت کا تختہ الٹنے تک ان کی مسلسل جدوجہد کو بھی بسیجی قیام کا نام دیا جا سکتا ہے۔
بسیج کا سنگ بنیاد فقہی اور جہادی حکم پر مبنی ہے۔ وہ جہاد جو دفاعی جذبے پر مبنی ہے نہ جارحیت۔ امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں بسیج ایک ایسی حکمت عملی ہے جسے عالمی ماہرین پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جب بھی کسی قوم میں ایمانی طاقت بحال ہوتی ہے تو وہ ہر کسی کو اللہ کے قیام کی دعوت دیتی ہے اور وہ پورے ملک کو متحرک کر سکتی ہے، بسیجی تحریک کا معیار بھی اسلام اور اس کے عظیم الشان مفاہیم کو سمجھنے میں پوشیدہ ہے۔
امام خمینی(رہ) کے نزدیک لوگوں کے اندر ایمانی جذبہ اور اسے تقویت پہنچانا بہت ضروری ہے اور یہی چیز بسیجی تحریک کا انجن شمار ہوتی ہے اور لوگوں کے اندر ایمانی جذبے کی پیدائش اور اس کو تقویت پہنچانے کے ناقابل تردید اور ناقابل تبدیل دو اسباب ہیں۔ ایک مساجد اور دوسرا علماء۔ مساجد دشمن کے مذموم مقاصد کے خلاف عوامی تحریک کے مراکز ہیں۔ اسلام میں اسلام کے آغاز سے ہی مسجد اسلامی تحریکوں کا مرکز رہی ہے۔ مسجد سے ہی اسلامی تبلیغات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور کافروں کی سرکوبی کے لئے اسلامی افواج کی تحریک مسجد سے ہی شروع ہوتی ہے۔
عصر حاضر میں بسیج کی اہم ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری اسکتبار کا مقابلہ کرنا ہے۔ خاص طور پر انقلاب کے اصلی دشمن یعنی امریکہ کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہفتۂ بسیج کی مناسبت سے ۲ آذر ۱۳۶۷ھ، شمسی کو امام خمینی(رہ) کے ایک پیغام میں پڑھتے ہیں: میں ایران کے تمام بزرگ افراد اور عہدیداروں سے عرض کرتا ہوں خواہ وہ جنگ میں ہوں یا صلح میں۔ سب سے بڑی سادگی یہ ہے کہ ہم تصور کریں کہ عالمی اسکتبار خصوصاً امریکہ اور سوویت یونین ہم اور ہمارے پیارے اسلام سے دسبردار ہوگئے ہیں۔ ہمیں ایک لمحہ کے لئے بھی دشمنوں سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے، اسلام ناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عداوت و دشمنی امریکہ کی فطرت میں ہے۔ امام خمینی(رہ) اسکتبار کے مقابلہ کے بارے میں فرماتے ہیں: اگر کسی ملک میں بسیجی فکر کی دلنشین آواز گونجتی ہے تو پھر دشمن اور ظالم اس کی طرف طمع و لالچ کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہر لمحہ کسی کی بھی واقعہ کا انتطار کرنا ہوگا۔ بسیج کو پہلے کی طرح مزید طاقت اور اعتماد کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنا چاہئے۔
بسیج کی ایک اور ذمہ داری برداشت، صبر اور علمی و عملی جدوجہد میں پوشیدہ ہے۔ اس سلسلہ میں امام خمینی(رہ) فرماتے ہیں: میں اپنے ملک کے پیارے نوجوانوں، ان عظیم الہی ذخائر اور سرمائے اور عالم اسلام کے ان خوشبودار پھولوں کو تاکید کرتا ہوں کہ اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات کی قدر جانیں اور اسلامی انقلاب کے عظیم مقاصد کے حصول کے لئے اپنے آپ کو ایک عظیم سائنسی اور عملی جدوجہد کے لئے تیار کریں۔ نوجوانوں کے لئے سائنسی اور علمی جدوجہد حقائق اور سچائیوں کی تلاش کے جذبے کو زندہ کرنا ہے لیکن ان کی عملی جدوجہد زندگی کے بہترین مناظر اور جہاد و شہادت میں پوشیدہ ہے۔
امام خمینی(رہ) بسیجیوں کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ میدان جنگ اور انقلاب کی مصور تاریخ میں اس عظیم قوم کی بہادری اور مظلومیت کے آئنہ دار ہو۔ آپ مقدس انسان اور مسلمانوں کے اعزاز اور اس ملک کے واقعات کی ڈھال ہو۔ میں تاکید سے کہتا ہوں کہ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مقدس ادارہ کو آپ میں سے ہر ایک کے وجود کی ضرورت ہے چاہے جنگ کا زمانہ ہو اور چاہے صلح کا ہو جو ہمارے نظام کی خدائی اقدار کے دفاع میں سب سے بڑا مضبوط قلعہ رہا ہے اور رہے گا۔ جی ہاں تمام عہدیدار بسیجیوں کے ایثار اور ان کی خدمت کے جذبے کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں اور ذمہ داری کے شعبے میں عیش و عشرت اور نااہلی اور لوگوں کے جذبات کو نظر انداز کرنا ایک ایسا خطرہ ہے جو بسیجی تحریک کے مقاصد کو نشانہ بنا سکتا ہے۔