امام رضا (ع) کی سیاسی سیرت
امام رضا (ع) اور دیگر ائمہ اطہار(ع) کی سیرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ اطہار (ع) میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی کے سخت شرائط میں بھی حق امامت و ولایت کو عیاں کرنے کی کوشش کی اور مناسب شرائط میں حکام وقت کو یاد دہانی کرائی اور اگر کوئی یہ کہے کہ ائمہ اطہار (ع) حکومتی امور اور مسائل و سیاست سے دوری رکھتے تھے تو حقیقت میں وہ ائمہ(ع) کی روش سے بے خبر ہے کیونکہ ائمہ اطہار(ع) نے کبھی بھی اپنے حق سے چشم پوشی نہیں کی اور انہوں نے ہمیشہ معاشرتی و اجتماعی و سیاسی و دینی مسائل کو اہمیت دی۔ امام رضا (ع) بھی خلیفہ وقت مأمون کے اقدامات کے سامنے ہر طرح کی فرصت سے استفادہ کرتے تھے تا کہ اس طریقہ سے آپؑ مأمون کی ارادوں سے لوگوں کو آگاہ کر سکیں نیز اسے اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ آپؑ کی جانب سے ولی عہدی قبول کرنے کے بعد اس طرح کے مسائل مزید رونما ہوئے البتہ امام (ع) مامون کی شخصیت سے بھی اچھے طریقہ سے با خبر تھے۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اعتبار سے ہرگز امام رضا (ع) حکومت کی تشکیل نہیں چاہتے تھے کیونکہ آپؑ کے دور میں انجام پانے والے قیام نیز اس طرح کی تحریکوں میں شمولیت اختیار نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں آپؑ کی نظر سب سے اہم مسئلہ فکری و عقیدتی انحراف تھا اسی وجہ سے آپؑ نے فکری و عقیدتی انحراف کو دور کرنے اور علوم اہل بیت (ع) کی نشر و اشاعت کو زیادہ اہمیت دی البتہ ائمہ اطہار (ع) کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے اس کی تشکیل کو اولویت قرار نہیں دیتے تھے بلکہ ان کی نظر میں حکومت مقاصد عالیہ کے حصول کی خاطر ایک وسیلہ تھی اسی وجہ سے حکومت کی تشکیل کے لئے کچھ شرائط کا پایا جانا لازمی ہے اور جب تک وہ شرائط مہیا نہ ہوں تو ائمہ معصومینؑ کی نگاہ میں حکومت کی تشکیل ضروری نہیں ہے۔
امام رضا (ع) نے بھی ابتدا میں مامون کی جانب سے ولی عہدی کی مخالفت کی حتی آپؑ نے اسے وصیت کی کہ یہ خبر کہیں بھی منتشر نہ ہو، لیکن اس نے دوبارہ امام (ع) کو پیغام بھیجا اور کہا کہ اگر آپ خلافت قبول نہیں کرتے تو کم از کم ولی عہدی قبول کریں۔ امام (ع) نے سختی سے اس کا انکار کیا۔ تاریخی و روائی منابع کے مطابق امام (ع) نے ولی عہدی قبول کرنے کے دلائل بھی بیان کئے جن میں ضرورت و اجبار کا عنصر واضح ہے ولی عہدی قبول کر کے امام (ع) نے اپنے پیروکاروں کے سامنے واضح کر دیا کہ ائمہ (ع) کی زندگی میں سیاست کا عنصر لازمی ہے جیسا کہ تاریخی منابع میں ذکر ہوا ہے کہ جب مامون نے آپؑ کے سامنے عرض کیا کہ وہ خلافت کو آپ کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو آپؑ نے واضح اور قاطع انداز میں خود خلافت اور مامون پر سوالیہ نشان لگا دیا اور اس سے فرمایا: إْن کانت هذه الخلافة لک و جعلها الله لک فلا یجوز أْن تخلَ لباسا ألبسـک الله و تجعلُ لغیرک و إن کانت الخلافُ لیس لک فلا یجـوز لک أْن تجعل لـی مـا لـیس لـک (مجلسی، بی تا، ج ٤٩: ١٢٩) یعنی اگر خلافت تمہارا حق ہے اور خدا نے اسے تمہارے لئے قرار دیا ہے تو پھر تمہارے لئے اس لباس خلافت کو اتار کر اسے کسی دوسرے کو پہنانا جائز نہیں ہے اور اگر وہ تمہارا حق نہیں ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیز تمہارا حق نہیں اسے مجھے عطا کرو۔ امام کی سیاست نے مامون کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ لہذا اگر ہم ولی عہدی کے نتائج کو مد نظر رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر امام (ع) ولی عہدی کو قبول نہ کرتے تو مامون آپؑ کو شہید کر دیتا اور وہ لوگوں کو دہوکا دے کر آپؑ کی شہادت کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے خود کو بری الذمہ قرار دے دیتا۔ اور اگر امام (ع) اسے کسی شرط کے بغیر قبول کر دیتے تو مامون اپنے تمام مقاصد تک پہنچ جاتا اور ولی عہدی سے نہ آپؑ اور نہ ہی آپؑ کے پیروکاروں کو کوئی فائدہ پہنچتا۔ اسی وجہ سے امام (ع) نے ولی عہدی کو کچھ شرائط کے تحت قبول کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام (ع) نے حکومت مامون پر خط بطلان کھینچ دیا اور ظاہری طور پر اسے قبول کرنے کرنا علویوں کے اوپر سے دباؤ کم ہونے کا سبب بنا نیز آپؑ اور انہیں علوم اہل بیتؑ کی نشر و اشاعت کا موقعہ بھی فراہم ہوا نیز امام (ع) نے عالم اسلام کے بارے میں موجود شبہات کو دور کیا، بقیہ ادیان کے سامنے اسلام کا دفاع کیا اور امر بہ معروف اور نہی از منکر کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ امام رضا (ع) سرکاری طور پر حکومت کے کسی مسئلہ میں مداخلت نہیں کرتے تھے لیکن اصل امر بہ معروف اور نہی از منکر کی بنا پر آپؑ تمام قسم کے انحرافات میں رکاوٹ بھی تھے اور بعض علماء کی نظر میں آپؑ کی شہادت کا ایک اہم سبب یہی چیز بنی۔
احادیث و روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے ائمہ معصومینؑ کی نگاہ میں طاغوتی حکومت باطل ہے اور اس کے ساتھ کسی طرح کی ہمکاری بھی باطل و حرام ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں تاریخ میں کچھ ایسے نمونے ملتے ہیں کہ ائمہ معصومینؑ کے اصحاب و انصار نے حکومتی امور میں ہمکاری کی حتی بعض اوقات امام معصوم نے اس کے بارے میں تاکید بھی کی۔
امام رضا (ع) کی سیاسی سیرت میں خلیفہ وقت مامون کے ساتھ ظاہری ہمکاری سے حسب ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں جو اپنے اندر نہایت اہم پیغامات رکھتے ہیں:
۱۔ امام رضا (ع) کی سیاسی سیرت میں اگرچہ بعض مقامات پر ظاہری طور پر حکومت کے ساتھ ہمکاری نظر آتی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپؑ نے اس کا تعاون کیا جیسا کہ امام (ع) نے اکثر ایسے مقامات پر حکومت کی مخالفت کی جن میں عباسی خلافت کو تقویت پہنچتی ہو۔ مثلا جب مامون نے فضل بن سہل کو قتل کیا تو اس نے امام (ع) سے مدد چاہی تو امام (ع) نے فرمایا: اس طرح کے امور خود حکومت کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کے اشارے پر انجام پاتے ہیں۔
۲۔ امام رضا (ع) کے ثقافتی اور اجتماعی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے آپؑ کے اقدامات پورے اسلامی معاشرے کے منافع پر مبنی تھے نیز اسلام کے عمومی منافع آپؑ کے مد نظر تھے۔
۳۔ طاغوتی حکومت کے ساتھ ظاہری ہمکاری مصلحت، اضطرار یا تقیہ کی بنا پر ہو سکتی ہے جیسا کہ امام کے زمانے میں اس طرح کے شرائط پائے جاتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کی عمومی مصلحت کی خاطر آپؑ نے محدود ہمکاری کی لیکن اس کے باوجود اس چیز کا خیال رکھا کہ طاغوتی اور باطل حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو پائے۔
۴۔ امام (ع) کی جانب سے حکومت کے ساتھ ہمکاری کا ایک اہم مقصد موجودہ مفاسد اور آلودگیوں کی اصلاح تھی اسی وجہ سے امام (ع) نے حکومت کی ظاہری ہمکاری میں امر بہ معروف اور نہی از منکر کو محور قرار دیا جیسا کہ ائمہ اطہار (ع) کی سیرت میں بھی یہی چیز ملتی ہے۔
۵۔ امام رضا ع) نے طاغوتی حکومت کے خلاف لڑنے کا طریقہ کار اپنے زمانے کے شرائط کے مطابق انتخاب کیا جس کے نتیجہ میں آپؑ اپنے بلند مقاصد تک پہنچ پائے