امام کی مفارقت احمد خمینی کا لاعلاج درد: بابا مالک حقیقی سے جا ملے
جو شخص بھی محبت، امام خمینی (رہ) ایرانی قوم، احمد خمینی اور امام خمینی (رہ) کا آپسی لگاؤ اور امام سے احمد کی محبت کے بارے میں بہتر جانتا ہو تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ ۱۳ خرداد ۱۳۶۸ھ،ش کو امام کی جان لیوا مفارقت کے نتیجہ میں احمد کے رنجیدہ دل پر کیا گزری ہوگی۔ انہوں نے تیزہ سال اپنے بابا کی دوری کو برداشت کیا اور جب ۱۳۵۶ھ،ش کو وہ نجف اشرف پہونچے تو انہوں نے جناب یوسفؑ کی طرح خود کو یعقوب انقلاب اور اسلام کے غمخوار بابا کی آغوش میں رکھ دیا اور جدائی کے ایام کو یاد کر کے بہت روئے اور اس کے بعد وہ ایک لمحہ بھی امام سے جدا نہیں ہوئے اسی دوران اپنے بھائی مصطفی خمینی کی شہادت نے انہیں داغدار کر دیا اور اس مفارقت کو تحمل کرنا ان کے لئے بہت سخت و دشوار ہو گیا کیونکہ مصطفی خمینی خود علم و حکمت وغیرہ میں اپنے بابا کے فضائل و کمالات کا ایک نمونہ تھے۔
ہمیشہ امام کے ہمراہ
امام کے لئے ان کے وجود اور ان کی لیاقت و عقل و فراست نے مصطفی خمینی کی کمی پوری کر دی امام نے ان کے ساتھ مشورہ کر کے پیرس ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور وہ بھی اپنے بابا کے ساتھ پیرس چلے گئے مسلسل ۵ مہینے ان ناگوار حالات میں انہوں نے ایک لمحہ بھی امام کو تنہا نہ چھوڑا ۱۲ بھمن کو اس پرخطر سفر میں وہ امام کے ساتھ ایران لوٹے ابھی شاہ کی ظالمانہ حکومت کا تختہ نہیں الٹا تھا اور ابھی انقلاب کو دس دن باقی تھے بہشت زہرا میں امام کا تاریخی خطاب اور اس کے بعد طاغوتی حکومت کی معزولی کا حکم نیز انقلابی حکومت کا آغاز اور اس کے بعد ۲۱ اور ۲۲ بھمن امریکہ اور شاہ کی شکست وغیرہ وغیرہ تک احمد خمینی نے پروانہ کی طرح امام کے شمع وجود کی حفاظت کی۔ اسلامی انقلابی کی کامیابی کے بعد اس دن سے لے کر امام کی رحلت یعنی ۱۳ خرداد ۱۳۶۸ تک انہوں دن و رات امام کے پاس گزارے اور امام کی رحلت تک ان کے ہمراہ رہے۔
ارجعی الی ربّک ( اپنے ربّ کی طرف پلٹ آو )
۱۲ خرداد رات دس بجے "ارجعی الی ربّک راضیۃ مرضیۃ" حکم صادر ہوا اور وہ ہونٹ جنہوں نے ۹۰ سال خدا اور حقیقت کے علاوہ کچھ جاری نہیں کیا، بند ہو گئے جماران کے در و دیوار سے نالہ و فریادیں بلند ہونے لگیں اور تھوڑی دیر بعد یہ فریادیں پورے ایران بلکہ دنیا میں ہر اس جگہ سنائی دینے لگیں جہاں کہیں کسی کا دل عشق خدا اور اسلام ناب کے لئے تڑپ رہا تھا۔ جیسے ہی امام کی روح پرواز ہوئی تو احمد خمینی نے کچھ لمحے امام کے چہرہ کو دیکھا اور اسکے بعد امام کے اس سینے سے لپٹ گئے جو عشق الہی سے مالا مال تھا انہوں نے اس کا بوسہ لیا اور اس کی خوشبو سونگی اس کے بعد ایک مرتبہ پھر انہوں نے امام کے نوارانی چہرہ و سر مبارک کو دیکھنا شروع کیا جو تقریباً ایک صدی سے خدا کے علاوہ کسی کے آگے نہیں جھکا تھا۔ پھر اپنے ہونٹ امام کے ہونٹوں پر رکھ کر ان کا بوسہ لینے کے بعد امام کی پیشانی اور آنکھوں کا بوسہ لیا یہ ایسی پیشانی تھی جو تقریبا مسلسل ۸۰ سال تک ہر دن و رات کئی مرتبہ خدائے بزرگ کی عظمت کے آگے جھک کر سجدہ ریز ہو چکی تھی وہ بھی ایسے سجدے جن کے اسرار خود امام نے کتاب آداب نماز اور سرّ الصلاۃ میں بیان فرمائے ہیں۔ جن آنکھوں کا بوسہ احمد خمینی نے لیا یہ ایسی آنکھیں تھیں کہ جو صرف یاد خدا اور اس کے خوف اور امت مسلمہ کے غم نیز خدا کے بندوں کے غم کے سوا اشکبار نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے بعد احمد خمینی دوبارہ اپنا سر اٹھا کر امام کے سینے پر رکھتے ہیں اور یہ آخری الوداع ہے اور یہ کتنا جانسوز الوداع ہے۔
بابا مالک حقیقی سے جا ملے
امام خمینی (رہ) ایسے شجاع و بہادر شخص تھے جو صرف اسلام کی نجات کے آئے تھے جنہوں نے ایرانی قوم کو ظلم و ستم سے نجات دلائی، جنہوں نے بے دینی کے دور میں اسلام ناب کا پرچم لہرایا، جنہوں نے انسانی شرافت اور عزت، خدائی اور معنوی اقدار کو مادہ پرستوں اور عالمی ظالموں کے زندان سے آزادی دلائی، جنہوں نے امت مسلمہ کے درمیان اتحاد قائم کیا، جن کا نام سنتے ہی عالمی طاقتیں کانپنے لگتی تھیں، جنہوں نے ظالم، سرکش اور مغرور امریکہ کی ناگ رگڑ دی، جنہوں نے قرآن اور احکام خداوندی کو انسانوں کی زندگی کے لئے دوبارہ زندہ کیا المختصر یہ کہ جنہوں نے اللہ جیسے بے مثال و بابرکت نام کو اسلامی ممالک میں دوبارہ یاد دلایا اور قیام و انقلاب اور اسلامی بیداری کا بیج مومنین کے دلوں میں بویا۔
امام کی جدائی کے سخت لمحے
جی ہاں اسلامی انقلاب کے بانی یعنی امام خمینی (رہ) نے اپنی ذمہ داریوں کو نہایت کمال کے ساتھ بخوبی انجام دیا اور وہ لقائے حق تک پہونچے اب احمد خمینی تھے جنہیں امام کی رحلت کے بعد اپنی ذمہ داری نبھانا تھی ۱۴خرداد ۱۳۶۸ھ،ش کی صبح کو امام خمینی (رہ) کے بیٹے احمد خمینی نے اپنی اشکبار آنکھوں سے امام کو آخری مرتبہ الوداع کیا۔