انسان قرآن کریم کی روشنی میں
انسان قرآن کریم کی روشنی میں بے شمار مثبت خصوصیات کا حامل ہے۔ وہ روئی زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ (بقرہ، 30) زبردست علمی ظرفیت کا مالک ہے (بقره، 31 اور 32) خداجوئی کی فطرت کا مالک ہے۔ الہی اور ملکوتی عنصر سے بہرہ مند ہے۔ روئے زمین پر خدا کی امانتوں کا ذمہ دار اور امین ہے۔ خدا کی یاد سے سکون پاتا ہے اور مقام اطمینان اور رضوان الہی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان تمام ظرفیتوں اور صلاحیتوں کے باوجود یہی انسان منفی خصوصیات بھی رکھتا ہے جو اس کی مذمت کے اسباب فراہم کرتی ہیں جیسے ملکوتی اور روحانی پہلو سے غفلت اور مادیت میں مشغول ہونا، ناشکری اور فانی فوائد اور لذتوں کو ترجیح دینا اور اس کے علاوہ دیگر مذموم صفات جن کا ذکر قرآن کریم میں ہوا ہے۔
انسان اپنی پوری زندگی میں اپنے حدود و اختیار اور انتخاب سے اپنے قوی کو کام میں لاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتا ہے۔ درحقیقت حیات کے میدان میں بنایا جاتا ہے، کیونکہ علوم، ادراک اور انسانی ملکات اس کی روح اور جان میں رسوخ کرجاتے ہیں اور اس سے متحد ہوجاتے ہیں اور انسان ایک دائمی انقلاب اور تبدیلی کا مرکز بن جاتا ہے۔ انسان میں وہ لیاقت اور قابلیت ہے کہ اگر وہ اپنے وجود کے پودہ کو کامل اور مکمل مربی کے حوالہ کردے تو وہ اس درجہ روحی بلندی اور وجودی عظمت حاصل کرے گا کہ اس کی حقیقت مقام تمثیل میں شجرہ طوبی رہی ہوجائے گی۔ جب یہ بات طے ہے کہ علم اور عمل انسان کو سنوارتے ہیں تو انسان کو علم نافع اور مفید اور عمل صالح کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان دونوں کو حاصل کرنے کے لئے دستورالعمل کا محتاج ہے اور انسان ساز دستورالعمل صرف اور صرف قرآن کریم ہے۔ لہذا وہ کامل انسان کہ صاحب مقام طہارت ہیں تعلیم قرآن کا مرجع اور مفید علم اور عمل صالح کا نمونہ ہیں۔ انسان کامل قرآن کریم کی روشنی میں سراج منیر کی طرح اللہ کی جانب انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کا ذمہ دار ہے۔ یہ انسان کامل اخلاقی اور نفسانی عیوب سے پاک اورمنزہ ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ عیوب انسان اور علم کے نقس سے پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ انسان کامل علم لدنی کا ملک ہے۔ انسان کامل کے علاوہ دیگر انسان کی بھی قرآن کریم اور روایات بڑی اہمیت اور قدر و منزلت ہے۔ اگر انسان اپنی حقیقت کو پہچان لے اور اپنی قدر کرے۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: "ھلک امرء من لم یعرف قدرہ؛ جس نے اپنی قدر نہیں پہچانی وہ ہلاک ہوگیا" کیونکہ دوسری حدیث کی روشنی میں "من عرف نفسه فقد عرف ربہ" کا مصداق ہوجاتا ہے۔ لہذا ہر انسان اپنے اپنے حدود میں اپنی قدر و منزلت اور غرض تخلیق کو پہچانے تو وہ انسان کامل کی تائید و تصدیق کا مرکز بن جاتا ہے اور اسے بھی خداوند عالم اپنے اختیار کا مالک بنادیتا ہے اور بڑی بڑی ذمہ داریاں دے دیتا ہے۔ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: "لقد کرمنا بنی آدم؛ ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا ہے" اس انسان کو عظمت کا مالک بنایا ہے اگر یہ انسان اپنی حقیقت کو پہچان کر اپنے رب کے بتائے ہوئے دستورات پر عمل کرے تو "قد افلح من تزکی" کی منزل پر فائز ہوجائے گا۔
خداوند عالم ہم سب کو اپنی معرفت سے نوازے اور خیر و سعادت کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔