عرفان حسینی اور آپؑ کی نگاہ میں مقصد خلقت

عرفان حسینی اور آپؑ کی نگاہ میں مقصد خلقت

حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے مکتب میں سب سے نمایاں اور برجستہ خصوصیت آپؑ کے بے مثال عرفان میں پوشیدہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں خداوندِمتعال کی معرفت ایک مخصوص معرفت ہے۔ آپؑ، خدا کی معرفت کے بحر بیکراں میں غرق تھے۔ حضرت حسین ابن علی علیہ السلام کا عرفانی پہلو آپؑ کی پرسوز و پرخلوص دعاؤں کے درمیان موجیں مار رہا ہے اور مکمل طور پر واضح ہے خاص طور پر امامؑ سے منقولہ دعائے عرفہ آپؑ کے اوجِ عرفان کی حکایت کرتی ہے۔ دعائے عرفہ میں امام علیہ السلام کی مناجات کا ایک نہایت خوبصورت جملہ حسب ذیل ہے: متیٰ غِبتَ حتّی تحتاج الیٰ دلیل یدلّ علیک؟ ومتیٰ بعُدت حتّی تکون الآثار ھی الّتی توصل الیک عَمیت عین لاتراک علیھا رقیباً و خسرت صفقۃ عبد لم تجعل لہ من حبّک نصیباً۔ اے خدا! تو کس وقت غائب اور نظروں سے اوجھل ہوا تاکہ تجھ پہ دلالت کرنے کے لئے کسی دلیل و برہان کی ضرورت پڑے جو تیری جانب رہنمائی کرے، تو ہم لوگوں سے کب دور ہوا تا کہ آثار و مخلوقات ہمیں تیرے نزدیک کریں۔ وہ آنکھ اندھی ہوجائے جو تجھے اپنا محافظ نہ سمجھے اور وہ بندہ بہت نقصان میں ہے جس کے لئے تو نے اپنی دوستی میں سے کچھ حصہ اور فائدہ قرار نہ دیا ہو۔

عرفان حسینی اور آپؑ کی نگاہ میں مقصد خلقت

حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے مکتب میں سب سے نمایاں اور برجستہ خصوصیت آپؑ کے بے مثال عرفان میں پوشیدہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں خداوندِمتعال کی  معرفت ایک مخصوص معرفت ہے۔ آپؑ، خدا کی معرفت کے بحر بیکراں میں غرق تھے۔ حضرت حسین ابن علی علیہ السلام کا عرفانی پہلو آپؑ کی پرسوز و پرخلوص دعاؤں کے درمیان  موجیں مار رہا ہے اور مکمل طور پر واضح ہے خاص طور پر امامؑ  سے منقولہ دعائے عرفہ  آپؑ کے اوجِ عرفان کی حکایت کرتی ہے۔ دعائے عرفہ میں امام علیہ السلام  کی  مناجات کا ایک  نہایت  خوبصورت جملہ حسب ذیل ہے: متیٰ غِبتَ حتّی تحتاج الیٰ دلیل یدلّ علیک؟ ومتیٰ بعُدت حتّی  تکون  الآثار ھی الّتی توصل الیک عَمیت عین لاتراک علیھا رقیباً و خسرت صفقۃ عبد لم  تجعل  لہ من حبّک نصیباً۔ اے خدا! تو کس وقت غائب اور نظروں سے اوجھل ہوا تاکہ تجھ پہ دلالت  کرنے کے لئے کسی  دلیل و برہان کی ضرورت  پڑے جو تیری جانب رہنمائی کرے، تو ہم لوگوں سے  کب دور ہوا تا کہ آثار و مخلوقات ہمیں تیرے نزدیک کریں۔ وہ آنکھ اندھی ہوجائے جو تجھے اپنا محافظ نہ سمجھے اور وہ بندہ بہت نقصان میں ہے جس کے لئے تو نے اپنی دوستی میں سے کچھ حصہ اور فائدہ قرار نہ دیا ہو۔

دوری نکردہ ای کہ  شوم  طالب حضور         غائب نگشتہ ای  کہ  ھویدا کنم  تو را

ممکن ہے آخری دو جملے خبریہ ہوں نہ کہ انشائیہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ  اندھی ہے وہ آنکھ  جو تیری نظارت کو اپنے اوپر محسوس نہیں کرتی اور اس بندے کی ثروت نقصان میں ہے  جسے تو نے اپنی محبت سے  محروم کردیا ہو۔

حقیقت میں اگر آنکھ تمام  جگہوں اور تمام چیزوں کو  دیکھتی ہو لیکن خدائی حفاظت کو درک کرنے سے عاجز ہو تو ایسی آنکھ  اندھی اور نابینا ہے کیونکہ اس نے سایہ وغیرہ کو تو دیکھا ہے لیکن وجود حقیقی، حقیقت کائنات اور  اصل وجود کو نہیں دیکھا ہے۔ حقیقت میں اگر ایک انسان پورے عالم پہ قبضہ جمالے اور باغ و بستان، گھر و دکان اور وسیع و بے شمار زمینوں کا مالک بن جائے لیکن اگر اس کے وجود میں خدا کے عشق و محبت کی خبر تک نہ ہو تو اس کا  سرمایہ نابود ہے اور اس کی تجارت گھاٹے اور نقصان میں ہے۔ دعا کے لذت بخش جملوں میں سے ایک جملہ حسب ذیل ہے: ماذا وجد من فقدک و ما الّذی فقد من وجدکَ لقد خابَ من رضی  دونک بدلاً و لقد خسر من بغیٰ عنکَ متحوِّلاً۔ جس نے  تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا اور جس نے تجھےپالیا اس نے کیا کھویا؟ حقیقت میں ہر اس شخص نے نقصان اٹھایا جو تیرے سوا و تیرے علاوہ کسی دوسرے سے راضی ہوگیا نیز وہ محروم و بےچارہ ہوگیا۔  اور حقیقت میں وہ شخص نقصان میں ہے جس نے تجھ سے منہ موڑ لیا۔ اسی طرح کتنے بہترین انداز میں آپؑ نے فرمایا ہے: یا مَن اذاق احبّائہ حلاوۃَ الموانسۃ فقاموا بین یدیہ متملّقین و یا من البس اولیائہ ملابس ھیبتہ فقاموا بین یدیہ مستغفرین۔ اے وہ ذات جس نے اپنی محبت کی مٹھاس اپنے دوستوں کو چکھائی ہے جس کی وجہ سے وہ  گریہ وزاری کرتے ہوئے تیرے سامنے خاضع ہیں اور اے وہ  ذات کہ  جس نے اپنی ہیبت و جلال کا لباس  اپنے اولیاء کو پہنایا ہے جس کی وجہ سے وہ  تیری بارگاہ میں استغفار میں مشغول ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے مقصدِ خلقت کو بھی بیان فرمایا ہے اس مقام پر ہم مختصر طور پر بیان کر رہے ہیں۔ کائنات میں ہر مفکّر خلقت کے راز و رموز کی تفسیر کرتا ہے ایک گروہ کھانے پینے،  ایک جماعت نفسانی خواہشات اور کچھ افراد خلقت کی غرض اس کے  اصلی مقصد کو قدرت  کا استعمال سمجھتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام ایک خاص نگاہ  کے حامل ہیں اور وہ معرفتِ خدا، عبادت خدا نیز خدا کی قربت اور تمام مخلوقات سے بے نیازی اور کلی طور پر خدا کی طرف متوجہ ہونے میں پوشیدہ ہے۔

مرحوم کراجکی نے نقل کیا ہے کہ امام صادقؑ نے فرمایا: ایک دن حضرت حسین ابن علی علیہما السلام اپنے اصحاب کے دیدار کی غرض  سے باہر تشریف لائے اور آپؑ  نے خداوند جلیل و عزیز کی حمد و ثنا اور محمد رسول اللہؐ پر دورد بھیجنے کے بعد فرمایا:

یا ایھاالناس انَّ اللہ واللہ ما خلقَ العباد الّا لیعرفوہ فاذا عرفوہ عبدوہ  فاذا عبدوہ استغنوا بعبادتہ عن عبادۃِ من سواہ فقال لہ رجل: بابی و امّی یابن رسول اللہ ما معرفۃ اللہ؟ قال: معرفۃ اھل کل زمان امامھم الّذی یجب علیھم طاعتہ۔  اے لوگو! ذات الہی کی قسم، خداوند متعال نے بندوں کو  صرف اپنی معرفت حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور جب وہ اسے پہچان لیں تو اس کی عبادت کریں لہذا جب انہوں نے اس کی عبادت و بندگی کی تو اس کی بندگی کے نتیجے میں  اس کے غیر کی عبادت و بندگی  سے بے نیاز ہوجائیں۔ اسی اثنا میں ایک مرد نے عرض کیا: یاابن رسول اللہ میرے ماں،باپ آپ پر فدا ہوجائیں  معرفت خدا سے مراد کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: یہ کہ ہر زمانے کے لوگ  اپنے امام کی معرفت حاصل کریں جس کی اطاعت ان پر لازم و واجب ہے۔

قابل غور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی نگاہِ مبارک میں انسانوں کی خلقت کا مقصد خداوندمتعال کی ذات لازوال کی معرفت ہے اور اس کی معرفت کی غرض  صرف اس ذات لازوال کی عبادت ہے اور اس کی عبادت سے مراد اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز ہونا  ہے۔  حریّت، آزادی اورخداوند متعال کے علاوہ کسی دوسرے سے وابستہ نہ ہونے اور اس کے سوا دوسروں سے  رابطہ منقطع کرتے ہوئے صرف اسی سے لو لگانے  کے حقیقی معنی یہی  ہیں۔

 وہ لوگ جو  ذلت اور رسوائی  کے عادی ہوچکے ہیں، جو طاقتوروں اور دولتمندوں کے سامنے  جھک رہے ہیں اور ان کی شخصیتوں کو ممتاز سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں نے مقصد کائنات کو نہیں پایا ہے انہوں نے ابھی خداوندمتعال کی معرفت حاصل نہیں کی ہے  نیز اس کی عبادت سے بھی دور ہیں جبکہ خدا کی معرفت  اور اس لازوال ذات  کی بندگی  انسان کو خداوندمتعال سے دوری کے نتیجہ میں نصیب ہونے والی رسوائی و ذلت کے بجائے عزت، سرافرازی اور سر بلندی عطا کرتی ہے اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو حجاج کی پاس آیا اور اس نے اس کا ہاتھ چومنے کا ارادہ کیا تو حجاج نے اس سے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ کے اوپر تیل و روغن مالی کر رکھی ہے لیکن وہ جواب دیتا ہے کہ میں چوموں گا اگرچہ وہ نجاست سے بھرا ہوا ہو۔

روایت کا آخری حصہ خدا وند متعال کی معرفت کے راستے کو ہمارے لئے بیان کرتا ہے اور وہ معرفت، معرفتِ امام ہے کہ ہر دور و ہر زمانے کے لوگوں پر اپنے زمانے کے امام کی اطاعت لازم و واجب ہے۔ (در مکتب امام حسین علیہ السلام، ص۹)  

ای میل کریں