امام کاظم علیہ السلام کے تلخ ترین مصائب
سب سے آخر میں امام موسی کاظم علیہ السّلام سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے، یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھا۔ آخر اسی قید میں حضرت کو انگور میں زہر دیا گیا۔ 25رجب 183 ہجری میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شہادت ہوئی۔ شہادت کے بعد آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نہیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توہین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ہوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا۔ مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ہو گیا تھا اس لیے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ تشیع کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جو اب کاظمین کے نام سے مشھور ہے، دفن کیا۔
امام کاظم علیہ السلام کو بصرہ میں ایک سال قید رکھنے کے بعد ہارون رشید ملعون نے والی بصرہ عیسی بن جعفر کو لکھا کہ موسی بن جعفر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قتل کر کے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے ۔ اس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہارون رشید ملعون کو لکھا : میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نہیں دیکھی۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نماز اور روزہ میں مصروف و مشغول رہتے ہیں اور عوام و حکومت کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بہبودی کے خواہشمند ہیں۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں۔ میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہا ہوں، لہٰذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید با مشقت سے آزاد کر دوں۔ اس خط کو پانے کے بعد ہارون رشید ملعون نے اس کام کو سندی بن شاہک کے حوالے کیا اور اسی ملعون کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا۔
ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ: ہارون رشید نے آپ کو بغداد میں قید کر دیا ” فلم یخرج من حبسہ الا میتا مقیدا“ اور تاحیات قید رکھا، آپ (ع) کی شہادت کے بعد آپ کے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹی گئیں۔ آپ کی شہادت ہارون رشید کے زہر سے ہوئی جو اس نے سندی ابن شاہک کے ذریعہ دلوایا تھا۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت 25 رجب المرجب بروز جمعہ 183 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر 55 سال کی تھی ۔ آپ نے 14 سال ہارون رشید کے قید خانے میں گزارے ۔ شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانے سے ہتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھا اور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔ سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہمت کر کے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے ۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے، انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازے کو لے کر مقبرہ قریش میں پہنچے۔ امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لیے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔ آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔
تدفین کے بعد امام رضا علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔ جب مدینہ والوں کو آپ کی شہادت کی خبر ملی تو کہرام برپا ہو گیا۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔
امام کاظم (ع) کے تلخ ترین مصائب:
امام کے یہ فضائل و کرامات اور سرگرمیاں ہارون کے غیظ و غضب اور کینے میں اضافے کا باعث بنتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ امام کی ایک طویل مدت ( تقریباً سولہ سال) زندانوں میں گزاری اور وہیں اپنے رب سے جا ملے ۔
آپ نے دوران قید تلخ ترین مصائب اور سخت ترین تکالیف کا سامنا کیا ، یہاں تک کہ آپ زندان سے تنگ آ گئے اور مدت کی طوالت سے ملول ہوئے ، حکومت آپ کو مختلف زندانوں میں منتقل کرتی رہی ، اس خوف سے کہ کہیں آپ کا رابطہ کسی شیعہ کے ساتھ برقرار نہ ہو جائے، سرکاری پولیس اور جاسوس سختی سے آپ کی نگرانی کیا کرتے رہتے تھے۔
امام طویل مدت تک ہارون کی قید میں رہے ، طویل قید نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور آپ کے بدن مبارک کو گھلا کر رکھ دیا تھا ، یہاں تک کہ جب آپ سجدہ کرتے تو ایسا معلوم ہوتا گویا زمین پر کوئی کپڑا پڑا ہوا ہو ، ایک مرتبہ خلیفہ کے ایک نمائندے نے آپ سے عرض کیا ' 'خلیفہ آپ سے معذرت خواہ ہے اور اس نے آپ کی آزادی کا حکم دیا ہے ، بشرطیکہ آپ اس سے ملاقات فرما کر معذرت حاصل کریں یا اس کی خوشنودی حاصل کریں ' '
امام نے نہایت بے نیازی کے ساتھ صریح الفاظ میں نفی میں جواب دیا ، یوں آپ نے زہر قاتل کا تلخ جام پینا گوارا فرمایا ، آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ کو اپنا ہمنوا بنانے کے سلسلے میں گمراہ حکمرانوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے اور ان کی گمراہی آشکار ہو۔
امام نے زندان سے ہارون کے نام ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہارون پر اپنے شدید غصے کا اظہار فرمایا : ' 'بتحقیق جتنے میرے مشقت و آلام کے دن گزریں گے اتنے ہی دن تیرے راحت و آرام کے بھی گزر جائیں گے ، پھر ایک دن ایسا آئے گا جب ہم سب کا خاتمہ ہو گا ، اور کبھی ختم نہ ہونے والا دن آ پہنچے گا ، اس دن بدکار لوگ خسارے میں ہوں گے۔
ہارون کے زندان میں امام قسم قسم کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے ، کیونکہ ایک طرف سے آپ کو بیڑیوں سے پا بہ زنجیر کیا گیا تھا اور دوسری طرف سے آپ پر زبردست سختیاں اور اذیتیں روا رکھی گئیں ، ہارون رشید نے ہر قسم کے مصائب ڈہانے کے بعد آخر کار آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا ، یوں آپ شہادت و سعادت کی منزل پر فائز ہوئے اور اپنے خالق سے جا ملے ، آپ کی شہادت 25، رجب 183 ہجری کو واقع ہوئی۔