علمائے اہلسنت کا ماننا ہے کہ رسول اکرم کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی، جبکہ شیعہ علماء نے آنحضرت کی آمد 17 ربیع الاول کو تسلیم کی ہے۔ لیکن یہ کوئی اختلاف نہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ نے کس روز روئے زمین پر آنکھیں کھولیں۔ ہمیں تو آپ کے کردار اور تعلیمات سے سروکار ہے۔ اس تاریخی ہیر پھیر کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں۔ اسی لئے انقلاب ایرانی کے بانی آیت اللہ خمینی نے ان ایام کو "ہفتہ وحدت" کے عنوان سے منسوب کیا ہے تاکہ امت میں اختلاف نہ ہو۔ اگر تاریخ اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو رسول اعظم کی مکمل حیات "امۃ واحدۃ" کا کامل نمونہ ہے۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو اختلاف سے دور رکھا۔ غیب کا علم رکھنے والے نبی کو بہت کچھ معلوم تھا، مگر آپ حالات کی نزاکت کے باعث ان سے چشم پوشی کرتے رہتے۔ اللہ کا ارشاد ہے:"قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ" یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ (سورہ حجرات 14) آپ نے بناوٹی مسلمان کو بھی اپنی امت کا حصہ مانا ہے۔ فتح مکہ کے بعد کچھ مشرکین نے بادل نخواستہ اسلام کا کلمہ پڑھ لیا، جبکہ دل میں شرک چھپا ہوا تھا مگر آپ نے ان کے حقوق کا بھی احترام کیا۔