امام حسن عسکری (ع) کی سیاسی سیرت پر طائرانہ نظر
امام حسن عسکری (ع) نے سن ۲۳۲ھ،ق میں مدینہ میں ولادت پائی آپؑ اپنے بابا کی طرح عباسی خلفاء کے حکم کے مطابق سامراء کے عسکر نامی محلہ میں سکونت پذیر تھے لہذا عسکری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو محمد اور مشہور القاب نقی اور زکی تھے آپؑ کی امامت کی مدت چھ سال تھی اور ۲۸سال کی عمر میں معتمد عباسی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
امام حسن عسکری (ع) نے عباسی حکومت کے شدید دباؤ کے باوجود اسلام کی پاسداری کی خاطر سیاسی اور اجتماعی و عملی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اس طریقہ سے آپؑ نے اسلام کی نابودی کے لئے عباسی حکومت کی تمام تر تلاش کو ناکارہ بنا دیا۔ آپؑ کی منجملہ کاوشیں حسب ذیل ہیں: اسلام اور اسلامی قوانین کے دفاع میں علمی کاوشیں۔ مخالفین کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات و اشکالات کے جوابات۔ صحیح و درست اسلام کی تبیین۔ سیاسی سرگرمی۔ اپنے شیعوں کی مالی امداد۔ منکرین امامت کا منہ توڑ جواب اور اپنے شیعوں کو اپنے بیٹے امام مھدی(ع) کی غیبت کے زمانہ کے لئے تیار کرنا۔
اگرچہ امام حسن عسکری (ع) کو عباسی حکومت کی شدید محدودیت اور حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے صحیح طریقہ سے علمی کاوشوں کا موقع نہ ملا لیکن اس کے باوجود آپؑ نے ایسے شاگردوں کی تربیت کی جنہوں نے اسلام اور اسلامی اقدار کی نشر و اشاعت میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ شیخ طوسی رحمہ اللہ نے آپؑ کے شاگردوں کی تعداد سو سے زیادہ بتائی ہے جن میں مشہور و معروف احمد بن اسحاق قمی، ابوعمرو عثمان بن سعید اور علی بن جعفر ہیں۔ آپؑ کے دور میں بعض اوقات مسلمانوں اور شیعوں کے لئے مشکلات پیدا ہوتی تھیں جنہیں آپؑ ہی حل کیا کرتے۔ آپؑ کے زمانہ میں شیعوں نے کافی ترقی حاصل کی اور مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کی منجملہ کوفہ، بغداد، نیشاپور، قم، مدائن، خراسان، یمن اور سامراء ایسے شہر تھے جنہیں شیعوں کا مرکز شمار کیا جاتا تھا جس کے نتیجہ میں ایک طرف سے شیعہ امامت سے متمسک ہوئے اور دوسری جانب سے آپسی رابطہ بھی برقرار ہوا اس کام کو بہتر انجام دینے کے لئے امام حسن عسکری (ع) نے اپنے مشہور و معروف نمائندے انتخاب کئے اور انہیں مختلف مقامات پر منصوب کیا۔ اس کے علاوہ امام حسن عسکری (ع) نے خطوط کے ذریعہ اپنے چاہنے والوں سے رابطہ برقرار رکھا اور اس طریقہ سے ان کی مشکلات کو دور کیا، امامؑ کے چاہنے والے ایک قریبی یعنی ابوالادیان کی کاوشیں منجملہ سرگرمیوں میں سے ہیں جو خطوط و پیغامات لے کر امامؑ کے چاہنے والوں تک پہنچاتے تھے اور اس کے نتیجہ میں تمام طرح کی مشکلات کو امامؑ کے ذریعہ دور کیا جاتا تھا اور انہیں ہدایت کی جانب گامزن کیا کرتے، ابن بابویہ کو امامؑ کی جانب سے لکھا گیا خط انہی خطوط کا ایک نمونہ ہے اس کے علاوہ بھی امامؑ نے قم اور ساوہ میں اپنے شیعوں کو خطوط لکھے جو شیعہ کتابوں میں محفوظ ہیں۔ عباسی حکومت کی جانب سے شدید کنٹرول اور دباؤ کے باوجود امام حسن عسکری (ع) نے خفیہ طور پر سیاسی سرگرمیاں انجام دیں نمونہ کے طور پر امام (ع) کے قریبی چاہنے والے عثمان بن سعید تیل بیچنے کے بہانے سرگرمی کیا کرتے اور امامؑ کے شیعہ تمام رقومات شرعی ان کے ذریعہ امامؑ تک پہنچاتے۔
امام حسن عسکری (ع) کا ایک موقف شیعوں کی مالی امداد اور حمایت میں پوشیدہ ہے بعض اوقات ایسا ہوتا کہ آپؑ کے چاہنے والوں میں جب کوئی تنگدستی کی شکایت کرتا تو آپؑ اس کی مشکلات کو دور کرتے امامؑ کا یہ قدم رکاوٹ بنتا تھا کہ وہ مالی مشکلات کی وجہ سے کہیں عباسی حکومت کا طرفدار نہ بن جائے اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلانا شروع کر دے۔ ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: میں مالی حالات کا شکار ہو گیا میں سوچ رہا تھا کہ اپنی مالی مشکلات کا تذکرہ امام (ع) کو خط لکھ کر ارسال کروں لیکن مجھے شرم محسوس ہو رہی تھی لیکن جب میں اپنے گھر پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ امامؑ نے سو درہم بھیجے ہیں اور ایک خط میں انہوں نے تحریر کیا کہ جب بھی تمہیں ضرورت محسوس ہو تو شرم نہ کرنا ہم سے مطالبہ کرنا اور خدا کی مدد سے تم اپنی مراد حاصل کر لو گے۔ امام حسن عسکری (ع) کی منجملہ سیاسی سرگرمیوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپؑ نے شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود اپنے چاہنے والوں کو سیاسی تقویت پہنچائی کیونکہ شیعوں کے بڑی بڑی شخصیات سیاسی دباؤ کا شکار تھیں لہذا امام (ع) انہیں صبر و تحمل کی تلقین کرتے ہوئے سیاسی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا کرتے۔ امام (ع) نے علی بن حسین بن بابویہ کو ایک خط میں لکھا: ہمارے شیعہ میرے بیٹے کے ظہور تک مسلسل غم و اندوہ کا شکار رہیں گے میرا بیٹا وہ ہے جس کے بارے میں رسول خداؐ نے بشارت دی کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہے۔ امام حسن عسکری (ع) کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ دیگر ائمہؑ کی نسبت خدا کی جانب سے عطا کردہ علمی صلاحیتوں کو زیادہ واضح کرتے کیونکہ آپؑ کی زندگی کے حالات کافی ناسازگار تھے بالخصوص جب امام ھادی علیہ السلام کو سامراء منتقل کیا گیا تو آپؑ شدید کنٹرول میں تھے جس کے نتیجہ میں بہت سے شیعوں کے دلوں میں بھی شک و تردید پیدا ہو گیا لہذا امام (ع) ان کی ہدایت اور گمراہوں سے ان کی نجات کے لئے بعض مزید علمی صلاحیتوں اور غیبی امداد کا سہارا لیتے۔ امام (ع) کی کاوشوں کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپؑ کا زمانہ ایسا تھا جس میں ہر طرف سے مختلف قسم کی افکار اسلامی معاشرہ کو دھمکا رہی تھیں لیکن آپؑ نے اپنے آباء و اجداد کی طرح ایک لمحہ بھی غفلت نہیں برتی اور اسلام مخالف تمام قسم کے منحرفانہ مکاتب فکر منجملہ صوفیوں، غالیوں، واقفیوں وغیرہ کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا۔ تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کا زمانہ عباسی حکومت کا بدترین دور شمار ہوتا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ حکام زمانہ کی عیش و عشرت کی وجہ سے بہت سی اسلامی اقدار کا خاتمہ ہو چکا تھا لہذا اگر امام (ع) کی مسلسل تلاش و کوشش نہ ہوتی تو عباسی حکومت کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا خاتمہ ہو جاتا اگرچہ امام (ع) پر عباسی حکومت کا مکمل کنٹرول تھا لیکن اس کے باوجود بہت سے اسلامی مقامات پر امام (ع) کے اپنے نمائندے پائے جاتے تھے اور اس کے نتیجہ میں آپؑ مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہتے تھے بہت سے شہروں میں مساجد اور دینی مراکز امام (ع) کے حکم سے تعمیر کئے گئے، منجملہ شہر قم میں مسجد امام حسن عسکری (ع)۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام (ع) اپنی امامت اور اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی تمام قسم کی مشکلات اور کمیوں کو دور کرنے کے درپے تھے۔ امام حسن عسکری (ع) کے دور میں سیاسی دباؤ اور محدودیت کی دو وجہیں تھیں ایک وجہ عراق میں شیعوں کے لئے حالات سازگار ہو رہے تھے اور وہ عباسی خلفاء کی حکومت کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ امامت الہی امام علی (ع) کے بیٹوں میں باقی ہے اور دوسری جانب سے اس زمانہ میں صرف امام عسکری (ع) ہی تھے جو اس خاندان کی ممتاز شخصیت تھی، عباسی حکومت کو معلوم تھا کہ مھدی موعود (عج) امام حسن عسکری (ع) کی نسل سے ہوں گے لہذا ان کی کوشش تھی امام (ع) کے بیٹے کو قتل کردیں لہذا سخت دباؤ اور سختیوں میں امام (ع) پر مکمل کنٹرول رکھے ہوئے تھی۔
منبع: hawzah.net