امام خمینی (رح) کی ترکی جلاوطنی
جب ظالموں اور ستمگروں کے پاس کوئی معقول اور مناسب جواب نہیں ہوتا اور جب اپنی عوام اور خواص کو مطمئن کرنے اور یقین دلانے میں عاجز و بے بس ہوجاتے ہیں تو پھر ظلم و جور، اذیت و آزار، شکنجہ اور قید و بند کی صعوبتیں دینے اور ملک بدر کرنے پر اتر آتے ہیں تا کہ کسی طرح ان کے ناپاک ارادہ کامیاب ہوں لیکن خدا کے خاص بندہ اور خدائی جذبہ رکھنے والے رہی اور روحانی افراد اس کی سازش کا قلع و قمع کردیتے ہیں اور اس کی نیتوں اور اعمال و کردار کو لوگوں کے سامنے لادیتے ہیں تا کہ عوام خود ملاحظہ کرے کہ اس کا حاکم کیسا ہے اور اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کررہا ہے یا اس کے حقوق کی حفاظت و پاسبانی۔
ایران میں حضرت امام خمینی (رح) نے جب حکومت کے منحوس چہروں کو لوگوں کے سامنے لادیا اور اس کے ظلم و جور، تشدد و بربریت کو واضح کردیا اور جب حکومت اپنے کرتوت اور سیاہ کارناموں پر لاجواب ہوگئی تو اس نے امام خمینی (رح) جیسے عظیم الہی رہنما پر ظلم و زیادتی شروع کردی اور وہ نوبت بھی آگئی کہ آپ کو ملک بدر کردیا۔
4/ نومبر سن 1964ءکی شب کو حکومت نے اپنے جلد بازی کی اور امام (رح) کی قیام گاہ پر راتوں رات حملہ کردیا۔ حضرت امام خمینی (رح) پورے اطمینان کے ساتھ اپنے گھر سے باہر آئے اور ان کمانڈوز کے حلقہ میں آئے جنہوں نے وحشیانہ انداز میں آپ کے گھر پر حملہ کیا تھا۔ امام خمینی (رح) کو بس سے تہران لے جایا گیا اور اسی دن جہاز سے ترکی جلاوطن کردیا گیا۔ اسی دن عصر کے وقت حضرت امام (رح) کے بڑے بیٹے شہید مصطفی خمینی (رح) کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور قزل قلعہ نامی جیل میں بھیج دیا گیا۔ قم، مشہد اور تہران میں عام زندگی کو معطل کردیا گیا۔ جب حضرت امام (رح) اور آپ کے فرزند مصطفی خمینی (رح) کی گرفتاری کی خبر پھیلی تو اکثر شہروں اور مقامات پر احتجاجات ہونے لگے۔ بعض شہروں اور قصبوں میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ 30/ دن تک جاری رہا۔
اسلامی تحریک کے رہبر کی حمایت اور تائید میں ٹیلیگراف ، پوسٹر اور پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور آپ کی جلاوطنی پر حکومت پر اعتراض اور تنقید ہونے لگی۔ اکثر شہروں میں امام (رح) کی غیر قانونی جلاوطنی پر اعتراض کے عنوان سے نماز جماعت تعطیل ہوگئیں اور ائمہ جماعتوں اور واعظین نے مسجد جانے سے انکار کردیا۔ امام خمینی (رح) کی جلاوطنی کا عکس العمل پوری دنیا میں دکھائی دیا اور ہر طرف سے ایرانی حکومت پر اعتراض ہونے لگے اور لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ امام خمینی (رح) کو جلاوطن کیوں کیا گیا۔ اس وقت پوری دنیا سمجھ گئی کہ جب ایک مرد مجاہد اور حق پرست نے حکومت کے سیاہ کارناموں اور ظالمانہ رویوں سے پردہ اٹھایا اور قوم کے جائز حقوق کا مطالبہ کیا تو اسے جلاوطن کردیا گیا ہے۔
خلاصہ، امام خمینی (رح) کو ترکی میں لے جا کر جلاوطن کردیا جاتا ہے لیکن امام (رح) نے اپنی جلاوطنی کے آغاز ہی سے اپنی قیام گاہ سے اپنے مقابلہ کو ایک نیا رخ دیا اور ممکن حد تک ایران کی اسلامی تحریک اور انقلاب کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔ جب امام (رح) اس وقت اپنی امت مسلمہ سے دور تھے اور اپنے بیان سے امت مسلمہ کے ذہنوں کو روشن نہیں کرسکتے تھے تو آپ نے ظلم و جور اور بڑی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کا ایک دوسرا طریقہ نکالا اور تمام مسلمانوں کو آگاہ اور بیدار کرنے کی ایک جدید روش کا سہارا لیا اور اسلام کے جدید مسائل پیش کرکے دینی مدارس اور اسلامی معاشرے میں ایک بنیادی انقلاب کی بنیاد ڈال دی۔ اس وقت امام (رح) فقہی کتاب "تحریر الوسیلہ" لکھنے میں مشغول ہوگئے تا کہ اسلام کے سیاسی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ عبادی مسائل بھی بیان ہوں اور سامراج کے دین اور سیاست کے جدا کرنے کے نعرہ کو بے اثر بنانے کے لئے قیمتی اور استوار قدم اٹھایا۔
ایران اور ترکی کی حکومتیں امام کو آپ کے وطن سے دور کرنے اور امام و امت کے در میان مکانی جدائی ڈالنے کے باوجود بھی وحشت زدہ تھیں۔ اسی لئے ترکی میں آپ کی قیام گاہ کو مسلسل بدلتے رہے۔ ایران اور ترکی کے اعلی عہدیداروں کی تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ امام (رح) مقام جلاوطنی میں ایک قیدی کی طرح رہنا نہیں چاہتے اور مسلسل سڑکوں اور شہر کے آثار قدیمہ کے دیکھنے کی تاکید کررہے ہیں۔ امام بھی دنیا کے عظیم رہبروں کی طرح سیر و سیاحت، آفاق و انفس کے مطالعہ اور تجربہ حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔
اسلام اور انسانیت کی خاطر حضرت امام خمینی (رح) نے اپنے وقت کے ظالم و جابر حاکموں کی ہر اذیت کو برداشت کیا اور ظلم و جور کو سہا لیکن باطل طاقتوں اور اسلام دشمن عناصر اور افکار کے سامنے کبھی گھٹنے نهیں ٹیکے۔ امام خمینی (رح) پر درود و سلام۔