آٹھ سالہ دفاع مقدس میں ایرانی قوم نے اپنی مٹھی بھر خاک پر قبضہ نہیں ہونے دیا بیرونی ممالک کے مشاورین و ماہرین سے بھی امداد نہیں مانگی، ایرانی قوم نے مردانہ استقامت و پائداری کا ثبوت دیا اس نے اپنے دفاعی سسٹم میں بھی خود کفائی حاصل کی نیز اس نے عالمی مستضعفین کی امداد کے عنوان سے ایک بڑی طاقت ہونے کا ثبوت دیا۔ انقلاب کے بانی و رہبر کے عنوان سے دفاع مقدس کے سلسلہ میں امام خمینی (رہ) کا رد عمل قابل توجہ ہے امام خمینی (رہ) نے بہت سی مشکلات و سختیاں برداشت کیں اور انہوں نے اسلام و ایران کی نابودی کے سلسلہ میں کمر بستہ عالمی طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کی پاسداری کی۔
انقلاب اسلامی کے بانی نے " افسری ارتش" نامی کالج میں طلاب کو خطاب فرماتے ہوئے فرمایا: جنگ تحمیلی و دفاع مقدس کی منجملہ برکتوں میں سے ایک برکت یہ ہے کہ ہمارے سرباز، نوجوان اور افسری کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے طلاب حصول علم کے ساتھ ساتھ عملی طور پر میدان جنگ میں حاضر ہوتے ہیں اور عملی تعلیمات حاصل کر رہے ہیں اور عملی علوم میں میزان عمل ہے پڑھائی نہیں۔ پڑھائی عمل کا مقدمہ ہے اور آج تم لوگ میدانوں میں بھی اسے حاصل کر رہے ہو۔ (صحیفۂ امام، ج۱۷، ص۲۵)
امام خمیںی (رہ) نے ایرانی و عالمی مسلمانوں اور خانۂ کعبہ کے زائرین کو پیغام دیتے ہوئے فرمایا: ایران کا اسلامی انقلاب ہزاروں شہیدوں و مجروحوں کے خون، گھروں کی بربادیوں، کسانوں کی کھیتیوں کو جلانے، بموں میں مارے جانے والی کثیر تعداد اور عراقی بعثی ظالمانہ حکومت کے ہاتھوں اسلام و انقلاب کے بیٹوں کی اسیری اور ہر طرح کے اقتصادی دباؤ نیز جانی دھمکیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوا ہے۔ ( صحیفۂ امام، ج۲۰، ص۳۲۴)
امام (رہ) معتقد تھے کہ جنگ میں صلاحیتیں بار آور ہوئیں ہیں، ہم خدا کے شکر گزار ہیں کہ عراقی بعثی و ظالمانہ حکومت کے خلاف جنگ میں کسی ملک اور بڑی طاقت کا ہمارے اوپر کوئی احسان نہیں ہے، ہماری قوم نے خدا پہ بھروسہ کرتے ہوئے اس کی استعانت سے تک و تنہا و مظلومانہ طور پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ملک کی بہت سی ضروریات کو پورا کیا ہے۔ آج ہم معجزانہ طور پر اپنے اسلامی ملک کے دفاعی میدانوں میں ظالموں کو ہزاروں کلو میٹر دور بھگانے کے ساتھ ساتھ بہت سی صنعتی تبدیلیوں منجملہ کارخانے کھولنے اور دسیوں قسم کے جدید و پیشرفتہ فوجی ذرائع ایجاد کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہم نے مذکورہ امور میں کسی غیر ملکی امداد کا سہارا نہیں لیا ہے۔ ( صحیفۂ امام، ج۲۰، ص۳۲۶)