امام محمد تقیؑ کی سیاسی و سماجی زندگی

امام محمد تقیؑ کی سیاسی و سماجی زندگی

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت جمعرات کے دن سن ۱۹۵ھ،ق میں ماہ مبارک رمضان کی ۱۵ویں یا ۱۹ویں یا ایک قول کی بنا پر رجب کی ۱۰ویں تاریخ کو شہرِ مدینہ میں ہوئی آپؑ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی "سبیکہ نوبیہ" تھا جو زوجۂ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہیں۔ بعض مورخین نے ان کا نام "درہ" بتایا ہے۔ آپؑ کی کنیت "ابو جعفر" ہے اور تاریخ و حدیث میں آپؑ کو "ابو جعفر ثانی" کہا جاتا ہے جبکہ "ابو جعفر اول" امام محمد باقرؑ ہیں، لقب، تقی، جواد، منتجب، مرتضی، قانع اور عالم ہے۔ آپؑ کی امامت کا زمانہ 17 سال یا 20 دن کم 18 سال یا 19 سال سے 25 دن کم پر مشتمل ہے۔ اپنے والد کے ساتھ رہنے کی مدت 7 سال یا 7 سال اور۴ مہینے، 2 دن یا 9 سال اور چند مہینے ہے۔آپؑ کے زمانے کے خلفاء خلیفۂ عباسی مامون (حکومت 193 تا 218 ق)، معتصم عباسی ہیں بعض نے واثق کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور آخر کار معتصم عباسی کے ہاتھوں آپؑ کو شہید کیا گیا۔(بحارالانوار: ج 50، ص 2، نشر دارالکتب الاسلامیه، 1385ھ)۔

امام محمد تقیؑ کی سیاسی و سماجی زندگی

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت جمعرات کے دن سن ۱۹۵ھ،ق میں ماہ مبارک رمضان کی ۱۵ویں یا ۱۹ویں یا ایک قول کی بنا پر رجب کی ۱۰ویں تاریخ کو شہرِ مدینہ میں ہوئی آپؑ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی "سبیکہ نوبیہ" تھا جو زوجۂ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہیں۔ بعض مورخین نے ان کا نام "درہ" بتایا ہے۔ آپؑ کی کنیت "ابو جعفر" ہے اور تاریخ و حدیث میں آپؑ کو "ابو جعفر ثانی" کہا جاتا ہے جبکہ "ابو جعفر اول" امام محمد باقرؑ ہیں، لقب، تقی، جواد، منتجب، مرتضی، قانع اور عالم ہے۔ آپؑ کی امامت کا زمانہ 17 سال یا 20 دن کم 18 سال یا 19 سال سے 25 دن کم پر مشتمل ہے۔ اپنے والد کے ساتھ رہنے کی مدت 7 سال یا 7 سال اور۴ مہینے، 2 دن یا 9 سال اور چند مہینے ہے۔آپؑ کے زمانے کے خلفاء خلیفۂ عباسی مامون (حکومت 193 تا 218 ق)، معتصم عباسی ہیں بعض نے واثق کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور آخر کار معتصم عباسی کے ہاتھوں آپؑ کو شہید کیا گیا۔(بحارالانوار: ج 50، ص 2، نشر دارالکتب الاسلامیه، 1385ھ)۔

احکامِ نجوم کی جانب حضرت امام جوادؑ کا اشارہ

متکلمین، فلاسفہ اور فقہاء کا عقیدہ ہے کہ زمین میں حکم خداوندی کے تحت بہت سی اشیاء اثر انداز ہوتی ہیں اور نظام کائنات ایک ہم آہنگ نظام ہے جس میں مختلف قسم کا ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: نطفہ منعقد ہونے کے بہترین اوقات ایرانیوں کے شمسی مہینوں میں فروردین، دی اور اردیبھشت تین مہینے ہیں۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے بھی فرمایا: دعا کرتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ قمر در عقرب نہ ہو۔( بحارالانوار، ج 58، ص 368)۔

امام کے زمانہ میں علم نجوم

سید بن طاووس(رہ) کے  عقیدہ کے مطابق امام معصوم کے زمانہ میں لوگ علم نجوم کے سلسلہ میں خود امام محمد تقی علیہ السلام سے پوچھ لیا کرتے تھے اور انہیں علم نجوم کے احکام کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ ائمہ اطہارؑ لوگوں کو واقعات کے وقوع کے اوقات، بعض علوم غائب،تاریخ وفات، زندگی کی مدت وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل سے مطلع کیا کرتے تھے اور بعض اوقات موت، نزولِ بلائیں اور اسرار علوم سے باخبر کرتے تھے۔ سید بن طاووس(رہ) مزید فرماتے ہیں: ہم اس سلسلہ میں ہمارے پاس بہت سی احادیث ہیں اور ہر امام سے ہم دو حدیثیں ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تا کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ستارہ شناس ایسے واقعات تک دسترسی رکھتے ہیں جن تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہارؑ کی رسائی نہیں ہے، اور اگر ہم غیب کے سلسلہ میں ان کی جانب سے منقولہ احادیث کو تحریر کریں تو کئی جلدوں پر مشتمل کتابوں تحریر ہوجائیں گی لیکن اس مقام پر ہم اس سلسلہ میں امام محمد تقی علیہ السلام سے منقولہ دو حدیثوں کو ذکر کر رہے ہیں:

۱۔ ابراہیم بن سعید کہتے ہیں: ہم امام محمد تقی علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے سے ایک گھوڑی کا گزر ہوا تو امامؑ نے فرمایا: یہ گھوڑی آج رات ایک ایسا بچہ جنے گی جس کی پیشانی سفید ہو گی۔ ابراہیم بن سعید کہتے ہیں: میں نے امامؑ سے اجازت لی اور میں اس کے مالک کے پاس گیا اور رات تک اس کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جب رات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ گھوڑی نے ایک بچے کو جنا ہے اور اس میں وہی صفات ہیں جو امامؑ نے بیان کی تھیں۔ میں دوبارہ امامؑ کی زیارت کے لئے شرفیاب ہوا تو آپؑ نے فرمایا: اے سعید کے بیٹے گویا تمہیں میری باتوں پر یقین نہیں تھا لیکن یہ جان لو کہ تمہارے ہاں ایک ایسا بیٹا پیدا ہونے والا ہے جس کی صرف ایک آنکھ ہوگی۔ سعید کہتے ہیں کہ اس وقت میری کنیز حاملہ تھی اور بعد میں اس نے اس بیٹے (محمد) کو جنم دیا جس کی ایک آنکھ ہے۔(فرج المهموم، ص 221، 232، نشر رضی، قم، بحار، ج 50، ص 58)۔

۲۔ صالح بن عطیہ کہتے ہیں: میں نے حج انجام دیا اور اس کے بعد اپنی تنہائی کے بارے میں نے امام جواد علیہ السلام سے شکایت کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: تم حرم سے ابھی باہر نہیں نکلو گے کہ تم ایک کنیز کی خریداری کرو گے جس سے تمہیں خدا ایک بیٹا عطا کرے گا، میں نے کہا: کیا اس سلسلہ میں آپؑ میری ہدایت فرمائیں گے؟ امامؑ نے فرمایا: ہاں تم کنیزوں کی نمایشگاہ میں جاؤ اور جو تمہیں پسند آئے اس کے بارے میں مجھے با خبر کرنا، میں نے امامؑ کی بات تسلیم کی اور بازار جا کر ایک کنیز کو پسند کرنے کے بعد امامؑ کو خبر دی تو امامؑ نے فرمایا:بازاز میں ہی رہو میں وہیں تم سے ملاقات کروں گا، میں بازار میں غلام فروشی کی دکان پر امامؑ کا منتظر رہا اور امامؑ تشریف لائے اور مجھ سے کہا کہ اگر تم نے اسے پسند کیا ہے تو خرید لو لیکن یہ جان لو کہ اس کی عمر کم ہو گی، میں نے کہا میں آپؑ پر فدا ہو جاؤں مجھے تو وہی پسند آئی ہے تو امامؑ نے فرمایا: میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے وہی ہونے والا ہے۔ دوسرے دن میں اس کنیز کو خریدنے کے لئے گیا تو اس کے مالک نے کہا اسے شدید بخار ہو رہا ہے اور اس کے زندہ رہنے کی کوئی امید باقی نہیں ہے تیسرے دن پھر میں گیا تو مالک نے کہا اسے آج اس کی موت ہو گئی ہے اور دفنا دیا گیا ہے اس کے بعد میں امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی داستان بیان کی تو امامؑ نے فرمایا: اب تم کسی اور کنیز کو مد نظر رکھو اور اسے پسند کرنے کے بعد مجھے باخبر کرو میں نے ایسے ہی کیا جب امامؑ تشریف لائے تو فرمایا: اسے خرید لو میں نے اسے خرید کر اس سے شادی کی تو میرے ہاں محمد نامی بیٹا پیدا ہوا۔ (فرج المهموم: ص 233، الخرایج و الجرائح، قطب راوندی، ج 2، ص 666، نشر مؤسسه امام مهدی، قم، 1409ه ، الثاقب فی المناقب، ابن حمزه، ص 524، تحقیق نبیل رضا علوان، نشر انصاریان، قم، 1411ه بحار، ج 50، ص 43، 58)۔

قابل ذکر ہے کہ علم نجوم ائمہ اطہار علیھم السلام کے بحر بیکراں علم کا ایک قطرہ ہے، جیسا کہ امام محمد تقی علیہ السلام اپنے بابا کی شہادت کے بعد مسجد پیغمبرٔ میں تشریف لاتے ہیں جبکہ آپؑ کا بچپنا ہوتا ہے اور منبر پر بیٹھتے ہی فرمایا: میں محمد بن علی الرضا ہوں میں جواد ہوں، میں لوگوں کے حسب و نسب سے واقف ہوں، میں تم لوگوں کے باطن و ظاہر تمام اسرار سے باخبر ہوں، یہ وہی علم ہے جسے خداوندمتعال نے کائنات کی خلقت سے پہلے ہمیں عطا کیا اگر اہلِ باطل و اہلِ شک نہ ہوتے تو میں ایسی گفتگو کرتا کہ تمام مخلوقات کو تعجب ہو جاتا اس کے بعد امامؑ نے اپنے دہانِ مبارک پر اپنا با برکت ہاتھ رکھا اور فرمایا: اے محمد خاموش ہوجاؤ جس طرح تمہارے آباء و اجداد نے خاموشی اختیار کی۔ (بحار، ج 50، ص 108)۔

شہادت کی وجہ اور تاریخِ شہادت

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنی بابرکت اور مختصر سی زندگی کو بہت سی ثقافتی، عقیدتی اور سیاسی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بسر کیا ایک جانب سے شروع میں ہی آپؑ کے بچپنے کو بہانہ بنا کرکچھ لوگوں نے آپؑ کی امامت قبول کرنے سے انکار کیا اور خود جاکر دوسرے شخص کو اپنے لئے معین کیا۔ طفولیت میں امامت کا مسئلہ حل ہونے تک بعض لوگوں کو حیرت اور سرگردانی کا سامنا رہا یہاں تک کہ ان کے لئے یہ مسئلہ حل ہوا اور وہ لوگ آپؑ کی امامت کے معتقد ہوئے۔ یہ مسئلہ ان شبہات میں سے ایک تھا جو امام رضاؑ کی زندگی میں بھی اور امام تقیؑ کی امامت کے دور میں بھی بعض لوگوں نے اٹھایا اور دونوں اماموں نے اس کا جواب قرآن کریم کے حوالے سے دیا۔ امامؑ نے ہزاروں قسم کے سوالوں کا جواب دیا منجملہ علی بن اسباط کہتے ہیں: جب امام محمد تقیؑ کو میں نے دیکھا تو میں نے ان کے جسم کی طرف غور سے دیکھنا شروع کیا تا کہ مصر میں جا کر ان کے چاہنے والوں کو بتا سکوں، اسی اثنا میں، میں نے دیکھا کہ امام زمین پر بیٹھ گئے گویا انہیں معلوم ہو گیا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں لہذا انہوں نے فرمایا: اے علی بن اسباط خداوندمتعال نے امامت کے لئے بھی وہی دلیلیں ذکر کی ہیں جو نبوت کے لئے ہیں۔ امامؑ نے جناب یحیی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: "و آتیناه الحکم صبیا" (مریم/ 12) ہم نے یحییؑ کو بچپنے میں ہی حکم نبوت دے دیا۔ حضرت یوسفؑ کے بارے میں فرمایا: و لما بلغ اشده آتیناه حکما و علما... (یوسف/ 22)جب وہ سنّ بلوغ کو پہونچے تو ہم نے انہیں حکم نبوت اور علم عطا کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: حتی اذا بلغ اشده و بلغ اربعین سنة... (احقاف/ 15) جب وہ سنّ بلوغ و رشد کو پہونچے اور چالیس سال کے ہوگئے تو انہیں نبوت عطا کی گئی اس بنا پر جس طرح خداوندمتعال چالیس سال کی عمر میں علم و حکمت عطا کر سکتا ہے تو وہی خدا بچپنے میں بھی عطا کر سکتا ہے۔ (اصول کافی: ج 1، ص 494، باب مولد ابی جعفر، دارالکتب الاسلامیة، تهران، بحار، ج 50، ص 37)۔

دوسری جانب سے امامؑ نے "واقفیہ" کے جھوٹے چہرے کو بھی برملا کر دیا۔ نیز امامؑ نے متکلمین بالخصوص ایک بہت بڑے اعتقادی گروہ یعنی معتزلہ کے ساتھ بھی بحث و مناظرہ کیا۔ اور اس سے ہٹ کر خلافت و ولایت کے بارے میں جعلی احادیث کی ترویج کرنے والوں کا بھی مقابلہ کیا۔ اسی طرح وقت کے علماء، بزرگوں اور یحی بن اکثم جیسے مشہور و معروف فقیہ سے بھی مناظرہ کیا اور سب کے سامنے اپنے مذہب کی برتری و حقانیت کو نہایت عمدہ دلیلوں کے ساتھ ثابت کیا۔ دوسرے ائمہؑ کی طرح امام جوادؑ کے زمانے میں مختلف قسم کے فرقے سرگرم عمل تھے اور معاشرے میں اپنے عقائد کی ترویج اور شیعیان اہل بیتؑ کو ان کے بنیادی عقائد سے دور اور منحرف کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ ان ہی فرقوں میں سے ایک فرقہ اہل حدیث کہلاتا تھا جو مُجَسِّمہ تھے اور خدا کو جسم سمجھتے تھے۔ امام جوادؑ نے بنیادی اور خالص شیعہ عقائد کے تحفظ کی خاطر اپنے پیروکاروں کو ان سے رابطہ نہ رکھنے کی تلقین کی اور فرمایا: شیعہ نماز میں اس عقیدے کے حامل افراد کی اقتدا نہ کریں اورانہیں زکات نہ دیں۔ اس کے علاوہ امام محمد تقی علیہ الالسم  کے دور میں سرگرم دوسرے گروہوں میں زیدیہ نامی فرقہ تھا جو شیعیان اثنا عشری سے جدا ہوئے تھے۔ زیدیہ کی ائمہؑ سے دشمنی بہت شدید تھی اور وہ ائمۂ اہل بیتؑ پر طعن کرتے تھے جس کی وجہ سے ائمہؑ اور بطور خاص امام جوادؑ نے ان کے خلاف شدید موقف اپنایا۔ امام محمد تقی علیہ السلام اپنے چاہنے والوں سے رابطہ برقرار رکھنے کی مکمل کوشش کی لہذا انہوں نے دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں وکیلوں کا جال بچھایا تھا اور ان کے توسط سے شیعیان اہل بیتؑ سے رابطے میں تھے۔ اگرچہ آپؑ اپنے محبین اور پیروکاروں کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہ تھے اور کیوں اس رابطے کو وکیلوں کے ذریعے سے برقرار رکھتے تھے؟ اس کی کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں؛ جن میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ آپؑ حکومت وقت کے زیر نگرانی تھے اور دوسری یہ کہ آپؑ لوگوں کو غیبت امام زمانہ(عج) کے لئے تیار کررہے تھے چنانچہ یہ سلسلہ امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے زمانے میں جاری رہا۔ امامؑ نے بغداد، کوفہ، اہواز، بصرہ، ہمدان، قم، رے، اور سیستان سمیت مختلف علاقوں میں مستقل نمائندے اور وکلاء مقرر کئے تھے۔نیز امامؑ وکلا کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعے بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مامون کے دربار میں قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے بات کا آغاز کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ امامؑ نے اس مسئلے کو کھول دیا اور اس کی مختلف صورتیں بیان کیں اور ابن اکثم سے کہا: تم کونسی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟ یحیی جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد امامؑ نے محرِم کے شکار کی مختلف صورتوں کے احکام الگ الگ بیان کئے تو تمام اہل دربار اور عباسی علما نے آپؑ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا ہے۔   

یحیی صنعانی کہتے ہیں: میں نے دیکھ کہ امام رضا علیہ السلام ابو جعفر (امام محمد تقیؑ) کو کیلا کھلاتے ہوئے فرما رہے ہیں: اے یحیی یہ وہی بچہ ہے جس سے بڑھ کر اسلام میں کوئی با برکت بچہ ہمارے شیعیوں کے لئے نہیں ہے۔ (بحار: ج 50، ص 35)۔

آخر کار امامؑ کو انہی ثقافتی کاوشوں اور عقیدتی و مذہبی سچائیوں کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔

ابو داوود قاضی کے دوست زرقان کہتے ہیں: ایک دن معتصم کے دربار سے قاضی خوفناک حالت میں گھر آئے میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: آج ابو جعفر محمد بن علیؑ کی وجہ سے مجھے اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ میں نے یہ آرزو کی کہ اے کاش میں آج سے بیس سال پہلے ہی مر گیا ہوتا میں نے پوچھا آخر کیا ہوا؟ انہوں نے کہا: ہم خلیفۂ معتصم کے دربار میں تھے کہ اچانک ایک چور کو لایا گیا اور اس پر حد جاری کرنے کا کہا گیا فقہاء و علماء کے علاوہ محمد بن علیؑ بھی دربار میں موجود تھے۔ خلیفہ نے ہم سے سوال کیا کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟ میں نے کہا: ہتھیلی سے کاٹا جائے تو خیلفہ نے کہا کس دلیل کے ساتھ؟ میں نے کہا: آیت تیمم کی وجہ سے کیونکہ اس آیت میں خداوندمتعال نے ہاتھ کو ہتھیلی پر اطلاق کیا ہے۔ بعض نے کہا: اس کے ہاتھ کو کہنی سے کاٹا جائے گا اور ان کی دلیل آیت وضو تھی کہ ہاتھ کو کہنی پر اطلاق کیا جاتا ہے اس کے بعد معتصم حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی جانب متوجہ ہوا اور کہا: آپؑ کا نظریہ کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا:حاضرین نے بتا دیا اور آپ نے سن لیا ہے معتصم نے کہا: مجھے ان سے مطلب نہیں ہے آپ بتائیں، حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: مجھے معاف کر دو خلیفہ نے اصرار کیا تو امامؑ نے فرمایا: چوری کی حد یہ ہے کہ چور کی چار انگلیوں کو کاٹا جائے اور اس کی ہتھیلی کو چھوڑ دیا جائے پوچھا اس کی دلیل کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ سجدہ میں سات مقامات کا زمین پر رہنا ضروری ہے منجملہ دونوں ہتھیلیاں۔ اس بنا پر اگر چور کا ہاتھ کہنی یا ہتھیلی سے کاٹا جائے تو ہتھیلی باقی نہیں رہے گی اور سجدہ کے مقامات خدا کا حق ہے اور اس کا کوئی حقدار نہیں ہےجیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: "و انّ المساجد للہ" معتصم نے یہ سنتے ہی امامؑ کی بات کو پسندیدہ قرار دیا اور حکم دیا کہ جس طرح امامؑ نے بتایا ہے اسی طرح چور کے ہاتھ کو کاٹا جائے۔ رزقان کہتے ہیں: قاضی ابوداوود تین دن بعد خلیفہ کے پاس گیا اور مخفیانہ انداز میں اس سے کہا: خلیفہ کی سلامتی مجھ پر لازم ہے اور جو واقعہ دو تین پہلے رونما ہوا ہے وہ خلیفہ کی خلافت کے لئے مناسب نہیں ہے کیونکہ ایسے دربار میں جہاں وزراء، امراء، روساء، شرفاء موجود ہوں خلیفہ ایسے شخص سے سوال کرتا ہے جسے آدھی دنیا امام اور خلیفہ جانتی ہے اور وہ خلیفہ کو غاصبِ حق شمار کرتا ہے نیز وہ تمام علماء و خلفاء کے خلاف فتوا دیتا ہے اور اس کے باوجود خلیفہ سب کے فتووں کو چھوڑ کر اس کے فتوے پر عمل کرتا ہے لہذا یہ خبر لوگوں میں پھیل چکی ہے اور ان کے چاہنے والوں اور شیعوں کے لئے دلیل بن چکی ہے۔ یہ باتیں سنتے ہی معتصم کے چہرہ کا رنگ تبدیل ہو گیا اور اس نے کہا: خداوندمتعال تمہیں جزائے خیر عطا کرے کہ تم نے مجھے ایک ایسے امر سے آگاہ کر دیا جس سے میں غافل تھا۔( محدث قمی، منتهی الآمال، فصل پنجم، در شهادت حضرت امام محمد تقی علیه السلام)۔

اسی وجہ سے اس نے امامؑ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور انہیں اپنے گھر مدعو کیا اور کھانے میں انہیں زہر دے دیا۔ ایک اور نقل کے مطابق مامون عباسی کی بیٹی ام الفضل کو امامؑ کے قتل کا حکم دیا گیا تھا جو آپؑ کی زوجہ تھیں اور اس نے انگور میں زہر ملا کر امامؑ کو کھلایا اور وہ شہید ہوگئے۔ امامؑ کی شہادت کی تاریخ کے بارے میں دو قول پائے جاتے ہیں ایک قول کے مطابق آپؑ کی شہادت کی تاریخ سنّ ۲۲۰ ھ ماہ ذیقعدہ کی آخری تاریخ ہے اور دوسرے قول کے مطابق ۶ یا ۷ ذالحجہ ہے۔ لیکن پہلا زیادہ مشہور ہے۔

منبع:hawzah.net          

ای میل کریں