امام رضاؑ کی اخلاقی و سیاسی زندگی

امام رضاؑ کی اخلاقی و سیاسی زندگی

امام رضاؑ کی اخلاقی و سیاسی زندگی

 امام رضاؑ کی اخلاقی و سیاسی زندگی

ولادت

آفتابِ امامت جس افق سے بھی طلوع کرے اس کی کرنیں دیکھنے کے لئے آنکھوں میں تاب نہیں ہے اس کی تمازت حیات بخش ہے۔ گیارہ ذیقعدہ سن ۱۴۸ ھجری قمری مدینہ میں امام موسی بن جعفر علیھما السلام کے گھر ایک بچہ کی ولادت ہوئی جو اپنے بابا کے بعد ایمان، علم و امامت وغیرہ میں اپنی مثال آپ تھا جن کا نام علی رکھا گیا اور رضا کے لقب سے مشھور ہوئے۔

زمانہ

آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سن ۱۸۳ھجری قمری میں امام کاظم علیہ السلام کی شھادت کے بعد، پینتیس سالہ زندگی میں خدائی منصب یعنی امامت پر فائز ہوئے اور پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی اس زمانہ میں عباسی خلافت اپنے عروج پر تھی اور وہ علوی قیام سے محفوظ رہنے نیز شیعانِ حیدر کرار کے قلوب کو اپنی جانب مجذوب کرنے کی خاطر کوشان تھی کہ اس خاندان کے ساتھ ظاھری طور پر گہرے تعلقات قائم کرے اور اس طریقہ سے اپنی خلافت کے جواز پر مہر تصدیق لگانے میں کامیاب ہو پائے۔

علم و آگہی

ہمارے ائمۂ اطہار مقام عصمت و امامت نیز امامت کے تقاضہ کے مطابق علم و حکمت کے اعتبار سے اپنے زمانہ کے تمام افراد سے زیادہ آگاہ و عالم تھے اسی بنا پر ہمارے آٹھویں امام نے اپنے بابا کی شھادت کے بعد ہارون کی حکومت میں بے جھجک تبلیغ دین و امامت میں مشغول رہے جیسا کہ آپؑ کے بعض چاہنے والے خطرہ محسوس کرنے لگے لیکن آپؑ واضح طور پر بیان فرماتے کہ جس طرح ابو جھل نے پوری کوشش کی لیکن وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بال بھی ٹیڑھا نہیں کر سکا اسی طرح ہارون بھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہونچا پائے گا۔

امام رضاؑ کی بعض خصوصیات

ابراہیم بن عباس کہتے ہیں: ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام نے گفتگو کرتے وقت کسی پر جور و ستم کیا ہو نیز ہم نے یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ دوسرے کی گفتگو ختم ہونے سے پہلے امامؑ نے اپنی بات کا آغاز کیا ہو۔ وہ ہر گز کسی محتاج کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے، نیکو کاری میں ہمیشہ سبقت لیتے اور مخفیانہ انفاق کرتے راتوں کی تاریکی میں فقراء کی مدد فرماتے ایک معمولی سے گھر میں سکونت پذیر تھے لیکن جب وہ باہر تشریف لے جاتے تو خود کو آراستہ کرتے ہوئے صاف ستھرا لباس پہن کر نکلتے تھے۔

تقوی شرافت کا سبب

جیسا کہ خداوندمتعال نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تقوی کو انسانوں کی برتری کا معیار قرار دیا ہے، ائمہ اطہار علیھم السلام بھی اس اہم امر کو مختلف انداز میں بیان فرماتے جیسا کہ ایک شخص نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: خدا کی قسم کوئی شخص بھی اس پوری کائنات میں برتری و شرافت کے اعتبار سے آپؑ کے آباء و اجداد کا ہم پلہ قرار نہیں پا سکتا، امام نے فرمایا: تقوی کی وجہ سے انہیں شرافت ملی اور خداوندمتعال کی اطاعت کے نتیجہ میں انہیں عزت ملی۔

مہمانوں کا احترام

مذہب اسلام میں مہمان کا بہت بڑا رتبہ ہے ائمہ اطہار علیھم السلام نے مختلف انداز میں اس اہم امر کی یاد دہانی کرائی ہے ایک رات امام رضا علیہ السلام کے ہاں کوئی مہمان آ گیا۔ گفتگو کے درمیان چراغ میں کوئی نقص پیدا ہو گیا اسی اثناء میں اس نے اسے صحیح کرنے کی کوشش کی لیکن امام علیہ السلام نے اسے فوراً بیٹھنے کا حکم دیا اور چراغ کا نقص خود دور کیا اور اس کے بعد فرمایا ہم اپنے مہمانوں کو کام پر مجبور نہیں کرتے۔

محتاجوں کا احترام

ایک دن ایک فقیر امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہونچا اور کہا: میں آپ کے چاہنے والوں میں سے ہوں، میں حج سے لوٹ کر آ رہا ہوں اور میرے پاس گھر جانے کا خرچہ نہیں ہے لہذا میرا مطالبہ ہے کہ آپؑ مجھے گھر پہونچنے تک کا خرچہ عنایت فرمائیں اور وہاں پہونچ کر میں اس رقم کو محتاجوں میں صدقہ کے عنوان سے تقسیم کر دوں گا، امام علیہ السلام اٹھے اور دوسرے کمرے سے دو سو دینار اٹھا کر اپنا ہاتھ کمرے سے نکالا اور اس شخص کو صدا دی کہ یہ لو اور یہ رقم تنہارے راستے میں تمہارے لئے کافی ہے نیز ضروری نہیں کہ اسے صدقہ کے عنوان سے فقیروں میں تقسیم کرو اس شخص نے دینار لئے اور چلا گیا۔ امام علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپؑ دینار کی ادائیگی میں کیوں مخفی ہو گئے اور صرف ایک ہاتھ نظر آ رہا تھا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: تا کہ میں اس شخص کے اندر شرمندگی کا مشاھدہ نہ کروں۔

معاشی زندگی میں عہد و پیمان کی اہمیت

 امام رضا علیہ السلام کے ایک صحابی نقل کرتے ہیں کہ ایک دن میں امام علیہ السلام کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے گیا، ان کے ہاں کچھ مزدور کام میں مصروف تھے اور ایک اجنبی بھی وہاں تھا۔ امام علیہ السلام نے پوچھا کہ یہ اجنبی کون ہے؟ جواب ملا کہ یہ تو اکثر و بیشتر ہمارے ساتھ کام وغیرہ میں حصہ لیتا رہتا ہے اور کام کے اختتام پر ہم اسے کچھ دے دیتے ہیں، یہ سنتے ہی امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے مزدوری معین کی ہے یا نہیں؟ جواب ملا: نہیں، امام علیہ السلام نے فرمایا کیا میں نے کہا نہیں کہ کسی کو بھی مزدوری طے کرنے سے پہلے مزدوری کی خاطر نہ بلاؤ کیونکہ اگر عہد و پیمان کے بغیر کسی کو مزدوری کے لئے بلاؤ گے تو اگر تین گنا بھی اسے دو گے تو وہ خیال کرے گا کہ اس کی مزدوری کم ہے لیکن اگر عہد و پیمان کے مطابق اسے مزدوری دی جائے تو وہ خوشی خوشی چلا جائے گا۔

فخر فروشی و غرور کی مذمت

احمد بزنطی امام رضا علیہ السلام کے مشہور و عالم صحابی نقل کرتے ہیں میں ایک رات امامؑ کی خدمت میں تھا جب میں امام سے خدا حافظی کرنے لگا تو آپؑ نے فرمایا: رات کو یہیں رک جاؤ اس کے بعد میرے لئے بستر تیار کیا گیا، میں فوراً سجدہ میں گر گیا اور کہا کہ خدا کا شکر کہ حجت خدا اور وارث انبیاء مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں میں ابھی سجدہ میں ہی تھا کہ امام دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے اور فرمایا: اے احمد ہرگز اس واقعہ کی وجہ سے دوسروں پر فخر فروشی و غرور نہ کرنا اور اس کے نتیجہ میں خود کو برتر قرار نہ دینا خدا کا خوف کرو اور تقوی اختیار کرو اس کی اطاعت میں زندگی بسر کرو تا کہ وہ تمہیں رفعت عطا کرے۔ امامؑ نے اپنے اس عمل سے واضح کرتے ہوئے خبردار کیا کہ تہذیب نفس و تربیت نفس و عمل صالح سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں اور انسان کو کبھی بھی مغرور نہیں ہونا چاہئے۔

مأمون کی مکارانہ چال کے مقابلہ میں امام کی سیاست

خلافت یا ولی عہدی کے سلسلہ میں مأمون کی نیت صاف نہیں تھی وہ اس سیاسی بازی میں کچھ مقاصد کی تلاش میں تھا لیکن اگر امام علیہ السلام مأمون کی چاہت کے مطابق اس کی رائے کو تسلیم کرلیتے تو اس کا فائدہ مأمون کو پہونچتا بہر حال یا مأمون خلیفہ بن جاتا یا ولی عہد اور مأمون کی شرط بھی یہی تھی، امام علیہ السلام نے ولایت عہدی کو مجبوراً تسلیم کرتے ہوئے تیسرا راستہ اختیار کیا اور امام علیہ السلام نے مخصوص روش کے ساتھ اس طریقہ سے عمل کیا کہ مأمون اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو پائے اور معاشرہ میں سب پر عیاں ہو جائے کہ اس کی حکومت ظالمانہ ہے۔

مدینہ سے مرو تک

مأمون کا نمائندہ رجاء بن ابی الضحاک کہتا ہے: مأمون نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مدینہ جاؤں اور وہاں سے امامؑ کو مرو لے کر آؤں اور راستے میں ان (علی ابن موسی الرضاؑ ) کی حرکات و سکنات پر ناظر رہوں مدینہ سے مرو تک ہم جس شہر سے بھی گذرے تمام شہروں کا میں نے مشاہدہ کیا کہ لوگ ان کی زیارت کے لئے دوڑ دوڑ کر آ رہے ہیں۔  

امامؑ نیشاپور میں

ابو صلت ھِروی کہتے ہیں: میں امام کے ساتھ تھا جب وہ نیشاپور سے تشریف لے جانے لگے تو علماء کی بڑی تعداد ان کے ارد گرد تھی اور وہ کہہ رہے تھے: آپؑ کو اپنے آباء و اجداد کا واسطہ ہمارے لئے کوئی حدیث نقل کریں امام علیہ السلام نے محمل سے سر باہر نکالا اور فرمایا: میرے بابا نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا کہ جبرائیلؑ نے کہا: خداوندمتعال نے فرمایا ہے: میں خدائے وحدہ لا شریک لہ ہوں اور میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے میری عبادت کرو جس نے خلوص کے ساتھ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے تو وہ میرے مضبوط قلعہ میں داخل ہو گیا اور وہ عذاب الہی سے محفوظ رہے گا اس کے بعد امامؑ کچھ قدم بڑھے اور فرمایا: بشر طھا و شروطھا و انا من شروطھا یعنی خدا کی وحدانیت پر ایمان کے کچھ شرائط ہیں اور ولایت و امامت کو تسلیم کرنا انہیں شرائط میں سے ہے۔

ولی عہدی کو تسلیم کرنے کی دلیل

ریان بن صلت کہتے ہیں: میں نے امامؑ کی خدمت میں عرض کیا اے فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بعض لوگ آپؑ کے سلسلہ میں باتیں کرتے ہیں کہ مأمون کی جانب سے ولی عہدی کو تسلیم کیا ہے جبکہ آپؑ خود زہد اختیار کرتے ہوئے دنیا سے لو نہ لگانے کی ترغیب دلاتے ہیں، امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا گواہ ہے کہ یہ کام میری مرضی کے خلاف تھا لیکن میں شہید کئے جانے اور ولی عہدی تسلیم کرنے کے درمیان دو راہی پر تھا لہذا میں نے اسے تسلیم کیا اس سے ہٹ کر میں اس معاملہ میں ایسا ہی ہوں جیسے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے لہذا میں خدا کی بارگاہ میں ملتمس ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں۔

عید فطر کی نماز

اسلامی عیدوں میں ایک عید، عید فطر ہے مأمون نے امام کو پیغام دیا کہ وہ نماز عید میں امامت کے فرائض انجام دیں تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: تمہیں  معلوم ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان کیا شرائط تھے لہذا میں نماز قائم کرنے سے معذور ہوں لیکن مأمون نے اصرار کیا تب امامؑ نے جواب دیا: میں نماز قائم کرنے کی خاطر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین علی ابن طالبؑ کی طرح گھر سے باہر نکلوں گا، مأمون نے تسلیم کیا عید کی صبح طلوع آفتاب سے پہلے گلیاں، کوچے امامؑ کے چاہنے والوں سے بھر گئے امامؑ نے غسل کیا اور لباس پہنا۔ اس کے بعد برہنہ پاؤں کے ساتھ نکلے اور ان کے پیروکاروں نے بھی ایسا ہی کیا امامؑ نے تکبیر کہی اور لوگوں کی بھیڑ نے بھی ان کی اطاعت کی اسی اثناء میں مرو کے پورے شہر میں گریہ و فریاد برپا ہو گیا یہ خبر جب مأمون تک پہونچی تو اس نے پیغام دیا کہ امام کو واپس بلاؤ اور ان سے کہو کہ وہی شخص جو پہلے نماز پڑھاتا تھا وہی پڑھائے گا، امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ میرے جوتے لے آؤ اور امامؑ جوتے پہن کر گھر لوٹ گئے اور اس کے نتیجہ میں مأمون کی منافقت سب پر عیاں ہو گئی۔

بحث و مناظرہ

فقیہ و محدث، شیعہ بزرگوار مرحوم شیخ صدوق لکھتے ہیں: مأمون مختلف گروہوں سے مختلف افراد کو مدعو کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ علمی مناظرات میں وہ امامؑ پر سبقت حاصل کر لیں اور وہ یہ کام حسد کی بنا پر کرتا تھا کیونکہ اسے امامؑ سے بہت حسد تھا لیکن امامؑ نے جس سے مناظرہ کیا اس نے امام علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف کیا اور امامؑ کے دلائل کے سامنے اسے تسلیم ہونا پڑا۔

منبع: Howzah.net

ای میل کریں