رمضان، ماہ عبادت اور بندگی

رمضان، ماہ عبادت اور بندگی

اولیائے الہی اگر چہ لوگوں کے درمیان اور لوگوں کے لئے ہوتے ہیں لیکن ایک آن کے لئے بھی یاد الہی سے غافل نهیں ہوتے، ان کی زندگی کے شیرین ترین اوقات عبادت اور خدا سے اتصال کا وقت ہے

آیات و روایات اور حضرت رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کی احادیث، روایات اور سیرت میں رمضان مبارک میں عبادت و ریاضت کی ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں اور ایسے ایسے نمونے دکھائی دیتے ہیں کہ کائنات عالم و آدم محو حیرت ہے اور کسی میں ان ہستیوں کے برابر عبادت اور ریاضت کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ ہم یہاں پر رسولخدا (ص) کی عبادت کے بارے میں اپنی فہم و توانائی کے بقدر کچھ عرض کررہے ہیں۔

رسولخدا (ص) نے اس درجہ ریاضت کی اور حق کے لئے باطل کے مقابلہ میں قیام کیا کہ آپ کے پائے مبارک  ورم کر گئے اور حضرت حق جل و جلالہ کی جانب سے آیت نازل ہوگئی "طہ* ما انزلنا  علیک القرآن لتشفی؛ اے رسولخدا! آپ اپنے آپ کو زحمت میں کیوں ڈال رہے ہیں۔ "(سورہ طہ، آیت1/ اور 2/)

خلقت کا ایک راز بندوں کی عبادت ہے جو خلقت کے اغراض و مقاصد میں سے ایک غرض اور مقصد ہے۔ جیسا کہ خود قرآن کریم تصریح فرما رہا ہے: "و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون؛ ہم نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت (معرفت) کے لئے پیدا کیا ہے۔" عبادت اور بندگی کی عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ کی عظمت کی نشانی خلقت ہے اور سارا عالم جن و انس کے لئے اور جن و انس خدا کی عبادت کے لئے خلق ہوئے ہیں۔ یہ دنیا بندگی اور عبادت کی جگہ ہے اور اولیائے الہی کی مسجد ہے جو بندہ قدر شناس ہوگا وہ کبھی حق تعالی کی بندگی سے روگرداں نہیں ہوگا اور ہمیشہ اس کا ہاتھ خدا کے سامنے پھیلا رہتا ہے۔

حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: حضرت رسولخدا (ص) کی بعض ازواج سے منقول ہے که رسولخدا (ص) ہم لوگوں سے گفتگو فرمارہے تھے اور ہم سب ان سے گفتگو کررہی تھیں اور جب نماز کا وقت آگیا تو گویا انہوں نے ہمیں نہیں پہچانا اور ہم نے انهیں۔ خدا سے تعلق اور لگاؤ کی وجہ سے۔

اولیائے الہی اگر چہ لوگوں کے درمیان اور لوگوں کے لئے ہوتے ہیں لیکن ایک آن کے لئے بھی یاد الہی سے غافل نهیں ہوتے، ان کی زندگی کے شیرین ترین اوقات عبادت اور خدا سے اتصال کا وقت ہے۔ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ استقامت اور پائیداری اللہ کے رسولوں کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ یہ کبھی اجر رسالت نہیں چاہتے، یہ آزاد  اور حر انسان ہوتے ہیں اور ہر  شخص اور ہر چیز سے قطع تعلق کرکے خالق عالم سے دل لگاتے ہیں۔ اس طرح سے انبیائے الہی نے کبھی تھکاوٹ اور خستگی کا احساس نہیں کیا، لوگوں کے بے توجہی سے ناراض نہیں ہوئے اور سب کے لئے رحمت الہی بنے رہے اور معاشرہ کے سب سے نچلے طبقہ کی زندگی گذاری اور اللہ کی عبادت میں تمام لوگوں سے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ یہ ہستیاں بلند و بالا روح کی مالک تھیں اور خود کو عالم بالا سے متعلق جانتی تھیں۔ یہ دنیا کو خدا کی مہمان نوازی کا گھر جانتی تھیں اور غیر خدا کو اپنے سے دور کرچکی تھیں۔ جیسا کہ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

"جو چیز انسان کو خدا کی ضیافت کی راہ دکھاتی ہے یہ ہے کہ غیر خدا کو الگ کردو اور یہ ہر کسی کو میسر نہیں ہے۔ انگشت شمار لوگ ہیں کہ ان میں سرفہرست رسوخدا (ص) ہیں جنہیں یہ نعمت میسر تھی۔ مبدا نور سے وہ قلبی توجہ اور اس کے علاوہ سے اعراض اور رو گردانی۔ (صحیفہ امام، ج 17، ص 490)

ای میل کریں