حضرت عبدالعظیم حسنی کی زندگی پر سرسری نگاہ
حضرت عبدالعظیم حسنی، شاہ عبدالعظیم و سید الکریم کے نام سے مشہور ہیں جو جلیل القدر عالم دین، محدث، محبّ اہل بیت اور حقیقی معنوں میں پیروکار و مطیع اہل بیت رسول اسلامؐ ہیں، انہوں نے اپنی مکمل زندگی اہل بیت علیہم السلام کی پیروی میں گزاری۔ نیز انہوں نے امام ھادی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: امام ھادی علیہ السلام کی اطاعت ہم سب پر واجب ہے اور انہوں اپنی عملی زندگی بھی امام ھادی علیہ السلام کی پیروی میں بسر کی۔
مورخین اور شیعہ علماء نے انہیں متقی، پرہیزگار، امانتدار، صادق، عالم دین، محدث اور شیعی اعتقاد کا پابند شمار کیا ہے۔ ان کی زندگی پر سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام شیعہ علماء کے درمیان خاص اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی تدفین ایران کے شہر تہران میں ہوئی جسے پہلے شہر ری کہا جاتا تھا۔
ولادت و نسب
عبدالعظیم بن عبداللہ بن علی بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب علیہم السلام ہیں جو عبدالعظیم حسنی کے نام سے مشہور ہیں ان کی ولادت جمعرات ۴ ربیع الثانی سن ۱۷۳ھ،ق میں ہارون رشید کی حکومت میں مدینہ میں ہوئی، ان کے بابا عبداللہ بن علی قافہ ہیں اور ان کے والدہ کا نام ھیفاء ہے اور ان کا شجرہ نسب چار واسطوں سے امام مجتبی علیہ السلام تک پہونچتا ہے۔ نجاشی نامی ایک شیعہ عالم دین کہتے ہیں: ان کی رحلت کے بعد جب انہیں غسل دیا جا رہا تھا تو ان کے لباس سے ایک کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ملاجس میں ان کا شجرہ نسب حسب ذیل طریقہ سے تحریر تھا: میں ابوالقاسم بن عبداللہ بن علی بن حسن بن زید بن امام حسن بن علی بن ابی طالب علیہم السلام ہوں ( رجال نجاشی، ص۲۴۸)۔
ائمہ اطہار کی ہمراہی
بعض نقل کے مطابق حضرت عبدالعظیم نے امام رضا اور امام جواد علیہما السلام کے زمانے کو درک کیا اور انہوں نے امام جواد علیہ السلام کے زمانے میں وفات پائی، نیز شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں انہیں امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب میں سے بھی شمار کیا ہے (رجال طوسی، ص۴۰۱)
ان کی زندگی کے حالات میں ملتا ہے کہ وہ ائمہ اطہارؑ کا مخصوص انداز میں احترام کیا کرتے جیسا کہ منقول ہے کہ شاہ عبدا العظیم جب بھی امام جواد اور امام ھادی علیہما السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تو نہایت ادب و خضوع و تواضع کے ساتھ ان کی خدمت سلام عرض کرتے اور امام بھی سلام کا جواب دینے کے بعد انہیں اپنے پاس بٹھاتے اس طرح کے ان کے زانو امام کے زانو سے ٹکراتے تھے اور امام بھی مکمل طور پر ان کی احوال پرسی کرتے اگرچہ یہ چیز دوسروں کے لئے حسرت کا باعث بنتی تھی۔
معنوی مقامات اور فضائل
حضرت عبدالعظیم حسنی کے بہت سے فضائل ہیں ان کے منجملہ فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ وہ خالص و مخلص شیعہ تھے اور یہ چیز اس زمانہ میں موجودہ شرائط کے پیش نظر بہت اہم تھی اور ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی جو ان فضائل کا حامل ہو سکے نیز وہ اپنے زمانے کے عابد و زاہد تھے اور اسی زہد و تقوی کے بنا پر انہیں ائمہ بہت چاہتے تھے جیسا کہ ائمہ علیہم السلام کی جانب سے منقول زیارت میں بھی ان کی منزلت و مقام کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں شیخ صدوق، محمد بن یحیی عطّار سے نقل کرتے ہیں کہ ان کی زیارت کا ثواب امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے برابر ہے جسے یوں نقل کیا گیا ہے: میں امام ھادی علیہ السلام کی خدمت میں پہونچا، انہوں نے فرمایا: کہاں تھے؟ میں نے کہا: حسین بن علی کی زیارت کے لئے گیا تھا تو امام ھادی علیہ السلام نے فرمایا: اما إنّک لَوزُرتَ قَبرَ عَبدِالعَظیمِ عِندَکُم کُنتَ کَمَن زارَ الحُسَینَ بنَ عَلِیٍّ(ع)" جان لو کہ تم اپنے شہر میں عبدالعظیم کی قبر کی زیارت کرو تو تم اس شخص کی مانند ہو جس نے امام حسین بن علی علیہ السلام کی زیارت کی ہو (صدوق، ثواب الاعمال، ص۹۹)
علی مقامات
حضرت عبدالعظیم کے علمی فضائل میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ عالم دین تھے اور بعض اوقات ان کے زمانے کے امام حصول علم کی خاطر لوگوں کو ان کی جانب بھیجتے تھے اس سلسلہ میں ابوتراب رویانی کہتے ہیں: میں نے سنا کہ ابو حماد رازی کہتے تھے کہ سامرا میں، میں امام ھادی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے بعض حلال و حرام مسائل کے بارے میں سوال کیا جب میں ان سے خدا حافظی کرنے لگا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: دینی امور میں اگر حلال و حرام کے بارے میں کسی مسئلہ میں تمہیں دشواری کا سامنا ہوا تو عبدالعظیم حسنی سے پوچھ لینا اور انہیں میرا سلام بھی پہونچا دینا۔ (نوری، مستدرک الوسائل، ج۱۷، ص۳۲۱) یہ عبارت بتاتی ہے کہ حضرت عبدالعظیم اپنے زمانے میں بہت بڑے عالم دین تھے جو اہل بیت علیہم السلام کی جانب سے حاصل کردہ اصول و قواعد کی بناء پر اعتقادی اور عملی میدان میں اسلام ناب کو بہتر انداز میں بیان کرنے اور لوگوں کو سوالوں کے جوابات دینے پر قادر تھے۔ لہذا حضرت عبدالعظیم خاندان رسالت کے عظیم الشان علماء میں سے ہیں جو ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعد علمی مسائل کی جوابدہی پر قادر تھے اور ان کی علمی توانائی بھی ائمہ علیہم السلام کی جانب سے تائید و تصدیق کا مقام ٹھہری ہے۔
احادیث میں ان کا مقام
حضرت عبدالعظیم شیعہ جلیل القدر اور عظیم الشان محدثوں و راویوں میں سے ہیں احادیث کی کتابوں میں سو سے زیادہ احادیث کے راوی شاہ عبدالعظیم حسنی ہیں۔ صاحب بن عباد کہتے ہیں: انہوں نے بہت سی روایات نقل کی ہیں اور انہوں نے امام جواد اور امام ھادی علیہما السلام سے احادیث نقل کی ہیں۔ (نوری، مستدرک الوسائل، ج۱۷، ص۳۲۱)
بعض شیعہ بزرگوں نے کچھ احادیث عبدالعظیم سے روایت کی ہیں اور شیخ صدوق نے کچھ روایات "جامع اخبار عبدالعظیم" کے عنوان سے بیان کی ہیں۔ انہوں نے ائمہ معصومینؑ سے کچھ روایات بلا واسطہ اور کچھ باواسطہ نقل کی ہیں جن میں دو روایتیں امام رضا علیہ السلام سے، ۲۶ امام جواد علیہ السلام سے اور ۹ روایتیں امام ھادی علیہ السلام سے نقل کی ہیں۔ جبکہ ۶۵ روایتیں ایسی ہیں جنہیں انہوں نے ائمہ معصومین علیہم السلام سے با واسطہ نقل کیا ہے۔ ان کی منجملہ کتابوں میں مشہور کتابیں جو ابھی موجود ہیں حسب ذیل ہیں: خطب امیر المومنینؑ، کتابِ یوم و لیلہ یاد رہے کہ یوم و لیلہ ظاہرا ایسی کتاب ہے جو مختلف اعمال پر مشتمل ہے جنہیں ائمہ اطہارؑ کی جانب سے روایات کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے اور ہر مکلّف دن و رات کے مستحبات اور واجبات کو ان کے مطابق انجام دے سکتا ہے۔ (نوری، مستدرک، ج۴، ص۴۰۴)
دینی عقائد کے صحیح ہونے پر خاص توجہ
حضرت عبدالعظیم اپنی پوری زندگی میں صحیح عقائد اور اہل بیت اطہارؑ کی پیروی کے در پے رہے جیسا کہ انہوں نے امام ھادی علیہ السلام کے سلسلہ میں فرمایا کہ امام ھادی علیہ السلام کی اطاعت ہم سب پر واجب ہے۔ اپنے عقائد کے سلسلہ میں اطمینان حاصل کرنے کی غرض سے ایک دن وہ سامرا میں امام ھادی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور امام علیہ السلام کے سامنے اپنے عقائد بیان کرتے ہیں اور ان کے اور امام ھادی علیہ السلام کے درمیان اس سلسلہ میں جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر انہوں نے ایک حدیث میں کیا ہے جسے "حدیث عرض دین" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اسی نام سے وہ حدیث مشہور بھی ہے اس میں وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ :اے پیغمبر کے بیٹے، مجھے اپنے عقائد آپؑ کے سامنے بیان کرنے کا کافی اشتیاق ہے کیونکہ اگر آپؑ نے ان کی تائید کی تو میں انہیں عقائد پر گامزن رہوں گا اور اگر ان میں اصلاح کی ضرورت ہوئی تو اصلاح کروں گا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ایک کر کے توحید، نبوت، امامت، قیامت وغیرہ وغیرہ کے بارے میں اپنے عقائد امام علیہ السلام کے سامنے پیش کئے اور جب ان کی بات مکمل ہوئی تو امام ھادی علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اے ابوالقاسم تم حقیقت میں ہمارے ولی ہو اور تم اسی دین پر ہو جو خدا کا پسندیدہ دین ہے جسے تم نے ہم اہل بیت سے حاصل کیا ہے خداوندمتعال تمہیں دنیا و آخرت میں اپنی گفتار پر ثابت قدم رکھے۔ ( صدوق، امالی، ص۴۱۹ و ۴۲۰)
حضرت عبدالعظیم حسنی کی رحلت یا شہادت
شاہ عبدالعظیم حسنی نے ۱۵ شوال سن ۲۵۲ھ،ق میں امام ھادی علیہ السلام کے زمانہ میں رحلت فرمائی۔ ان کی رحلت کے سلسلہ میں دو قول نقل ہوئے ہیں ایک ان کی طبعی موت کے بارے میں ہے اور ایک ان کی شہادت کے بارے میں ہے۔ نجاشی اور شیخ طوسی دونوں ان کی وفات کے قائل ہیں کہ ان کی وفات ری میں ہوئی ہے (طوسی، الفھرست، ۱۴۱۷ق، ص۱۹۳) لیکن ان کے مقابلہ میں ایک روایت ان کو زہر دینے، زندہ درگور کرنے اور ان کی شہادت کے بارے میں بھی موجود ہے (المنتخب، طریحی، ص۷) جیسا کہ حضرت عبدالعظیم حسنی کی زیارت کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے تشبیہ دینا ان کی شہادت کی دلیل ہے۔
حضرت عبدالعظیم کی تدفین کے بارے میں پیغمبرؐ کی وصیت
حضرت عبدالعظیم کی تدفین کے بارے کی داستان بھی نہایت دلچسپ ہے جو ان کی شان و منزلت کو بیان کر رہی ہے صاحب بن عباد سے منقول ہے کہ حضرت عبدالعظیم کی وفات کی رات ری کے ایک شیعہ عالم دین نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبرؐ تشریف لائے ہیں اور انہوں نے فرمایا: میری اولاد میں سے ایک کو کل سکۃ الموالی سے لائیں گے اور عبدالجبّار بن عبدالوھاب کے باغ میں سیب کے درخت کے پاس انہیں دفن کیا جائے گا۔ وہ شخص باغ کے مالک کے پاس گیا تا کہ وہ اس درخت اور اس جگہ کی خریداری کر سکے۔ باغ کے مالک نے اس سے کہا: تم کس لئے خریدنا چاہتے ہو؟ اس نے خواب کی داستان بیان کی تو باغ کے مالک نے کہا: میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے اور میں نے یہ درخت اور باغ سادات اور شیعوں کے لئے وقف کر دیا ہے تا کہ وہ اپنی اموات وہاں تدفین کر سکیں اسی وجہ سے ان کا مقبرہ "مسجد شجرہ" یا " درخت کے نزدیک مزار" کے نام سے مشہور ہے۔
منبع:Hawzah.net