امام مھدی علیہ السلام کیوں غائب ہیں ؟

امام مھدی علیہ السلام کیوں غائب ہیں ؟


پیغمبر خدا(ص) کے آخری وصی، شیعوں کے بارہویں امام اور خاندان رسالت کے چودہویں معصوم،حضرت امام مھدیؑ کی ولادت ماہ شعبان کی پندرہویں تاریخ سن ۲۵۵ ہجری میں شہرِ سامراہ میں ہوئی،

امام مھدی علیہ السلام کیوں غائب ہیں ؟

پیغمبر خدا(ص) کے آخری وصی، شیعوں کے بارہویں امام اور خاندان رسالت کے چودہویں معصوم،حضرت امام مھدیؑ کی ولادت ماہ شعبان کی پندرہویں تاریخ سن ۲۵۵ ہجری میں شہرِ سامراہ میں ہوئی، آپ کی ولادت کے نتیجہ میں پیغمبر خداؐ اور آئمہ معصومینؑ کی جانب سے تقریباً دو صدیوں پہلے دی جانے والی خوشخبری کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ آپ کے آنے سے زمین با برکت ہوگئی، آپ کا اسم گرامی پیغمبرؐ کا اسم گرامی اور آپ کی کنیت رسول خداؐ کی کنیت ہے۔ جیسا کہ روایات میں ملتا ہے کہ عصر غیبت میں آپ کو آپ کے نام سے نہ پکارا جائے بلکہ متعدد القاب جیسے مھدی، منتظر، حجت، صاحب امر، صاحب الزمان، بقیۃ اللہ، قائم، خلف صالح وغیرہ وغیرہ سے پکارا جائے۔ آپ کے والد گرامی امام عسکری(ع) اور آپ کی والدہ گرامی نرجس خاتون ہیں کہ جن کا اصلی نام ملیکہ تھا۔  آپ کے وجود، خصوصیات، ظہور کی خصوصیات، اصحاب کی خصوصیات اور حکومت کی کیفیت کے بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں اور روایات کے مطابق آپ کے بارے میں عقیدہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ اہل سنت کی کتابوں میں بھی بہت سی روایات منقول ہوئی ہیں۔

مرحوم ثقۃ الاسلام نوری فرماتے ہیں: امام عصر علیہ السلام کے اسماء شریفہ کے سلسلہ میں آیات و روایات اور گذشتہ آسمانی کتابوں میں آپ علیہ السلام کے ایک سو بیاسی اسماء و القاب ذکر کئے ہیں۔ اور انہوں نے صرف یقینی و قطعی اسماء و القاب پر اکتفا کیا ہے جبکہ مختلف کتابوں سے اور بھی اسماء و القاب قابل استخراج ہیں۔ منجملہ اسماء حسب ذیل ہیں: محمد، احمد، عبداللہ، محمود، مھدی، برھان، حجت، حامد، خلف، صالح، داعی، شرید، صاحب، غائب، قائم، منتظر وغیرہ۔ اور آپ کی کنیتں بھی حسب ذیل ہیں: ابوالقاسم( پیغمبرؐ کی کنیت بھی ہے) ابو عبداللہ، ابو صالح اور مرحوم نوری ابو ابراھیم، ابوالحسن اور ابو تراب کو بھی آپ کی کنیت کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔حضرت امام زمانہ علیہ السلام رفتار، گفتار، اور سیرت میں مکمل طور پر شبیہ رسول خداؐ ہیں، شب بیداری کے نتیجہ میں آپ کے سفید چہھرے کا رنگ زرد ہوجاتا تھا۔

امام جواد علیہ السلام کی بیٹی اور امام حسن عکسری علیہ السلام کی پھوپھی جناب " حکیمہ" سے منقول ہے جسے شیخ صدوق اپنی کتاب کمال الدین میں نقل کرتے ہیں: ابو محمد حسن بن علی علیہ السلام نے کسی کے ذریعہ مجھے پیغام بھیجا اور فرمایا: اے پھوپھی! آج رات افطار ہمارے ساتھ کیجئے کیونکہ آج رات پندرھویں شعبان ہے اور خداوندمتعال نے اسی رات اپنی حجت کو زمین پر آشکار فرمایا ہے۔ میں نے پوچھا" اس کی والدہ کون ہیں؟ فرمایا: نرجس۔ میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں، خدا کی قسم نرجس میں کہیں حمل کے آثار نظر نہیں آئے! فرمایا: داستان اس طرح سے ہے کہ میں تھوڑے وقت کے لئے آرام فرما تھا اور اسی اثناء میں نرجس نے وضع حمل کیا اور میں اسی نوزاد کی حرکت سے بیدار ہوا، میں نے دیکھا کہ وہ سجدہ ریز ہیں میں نے آغوش میں لیا اور میں نے مشاھدہ کیا کہ وہ پاک و پاکیزہ ہیں اور آثار ولادت وغیرہ کے آثار ان پر نمودار نہیں ہیں۔ اسی اثناء میں ابو محمد( امام حسن عسکریؑ) نے بلند آواز میں فرمایا: اے پھوپھی! میرے بیٹے کو میرے پاس لاؤ، آپؑ نے انہیں اپنے ہاتھوں پر رکھا اور اپنی زبان کو ان کے منہ میں ڈالا اور اس کے بعد کہا: اے میرے بیٹے! کچھ بولو اس کے بعد بیٹے نے زبان کھولی اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں خدائے وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے نیز میں گواہی دیتا ہوں  کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کی جانب سے بھیجے گئے ہیں اس کے بعد انہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر اماموں پر درود بھیجا یہاں تک کہ اپنے والد گرامی کے نام تک پہونچے اور ان پر بھی درود بھیجا۔

جیسے ہی ماہ ربیع الاول کی آٹھویں تاریخ، سن ۲۶۰ ھجری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت واقع ہوئی تو امام مھدیؑ کی غیبت صغریٰ کا آغاز ہوا اور غیبت صغریٰ کا سلسلہ امام زمانہ کے آخری خاص نائب "علی بن محمد سمری" کی شھادت یعنی پندرہ شعبان سن ۳۲۹ ھجری تک جاری رہا۔ قابل ذکر ہے کہ غیبت صغری کا زمانہ ۶۹ سال رہا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے بعد آہستہ آہستہ یہ خبر پھیل گئی کہ امامؑ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے اور وہ بارھویں امام اور مھدی موعود ہیں۔ یہ خبر پھیلتے ہی عباسیوں کے درمیان کھلبلی مچ گئی۔ اس کے نتیجہ میں معتمد عباسی کے حکم کے مطابق مامورین امام کے گھر میں داخل ہوئے اور بیٹے کی تلاش کرنے لگ گئے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے پھر اس نے حکم دیا کہ بعض عورتیں، حضرت امام حسن عسکریؑ کی ازواج و کنیزوں کا معائنہ کریں اور اگر حمل کے کوئی آثار نظر آئیں تو خلیفہ کو مطلع کریں۔

امام مھدیؑ کیوں غائب ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے کیونکہ یہ کوئی عقلی مسئلہ نہیں تا کہ اس پر دلیلیں بیان کی جا سکیں نیز عرفی مسئلہ بھی نہیں تا کہ عرف و عقلاء اسے ادراک کر پائیں۔ بلکہ یہ ایک تعبّدی موضوع ہے جس کا جواب وحی، رسول خداؐ اور اھل بیت اطھارؑ سے معلوم کیا جا سکتا ہے،جب ہم محمد و آل محمدؐ کی روایات کی جانب رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے، روایات غیبت کے دلائل یوں بیان کرتی ہیں: خوف و ہراس، بیعت سے فرار، دیگر پیغمبروں سے مطابقت، کافروں پر اتمام حجت، لوگوں کی آزمائش و امتحان، غیبت کا اسرار الھی میں سے ہونا وغیرہ۔ بحار الانوار کی ۱۳ ھویں جلد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یوں نقل ہوا ہے: اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت پر فائز کیا، لوگ غیبت کے زمانہ میں ان کی رہبری سے بہرہ مند ہوں گے جس طرح بادلوں میں چھپے سورج سے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ غیبت کے دور میں امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے وجود مقدس کی نامرئی شعاعوں کے متعدد آثار ہیں جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں: معاشرہ و سماج کو امیدوار بنانا، دین خدا اور قوانین الھی کی حفاظت و پاسداری، شائستہ و لائق افراد کی تربیت، معنوی نفوذ، مقاصد خلقت تک پہونچنا اور شیعوں کے اعمال پر نظارت وغیرہ۔

منبع:Howzah.net    

ای میل کریں