اسلامی بیداری

اقوام و ملل کی بیداری، مستکبرین کی طاقت کے مانع

مسلمانوں کی تقریباً ایک ارب آبادی کہ جس کے پاس اس قدر وسیع سر زمینیں ہیں ، اس قدر زیادہ زیر زمین ذخائر ہیں اور وسیع ترین اسلامی والٰہی حمایت ہے، اس کے ذہن میں یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے

ہمیں  ایسا کام کرنا چاہیے کہ تمام ملل واقوام اپنے فرائض سے آگاہ ہوجائیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں ، اگر علما ودانشور چاہتے ہیں ، اگر تمام اسلامی ممالک کے علماء چاہتے ہیں  اور اگر تمام اسلامی ممالک کی یونیورسٹیاں  چاہتی ہیں  کہ اسلام اور اسلامی ممالک کی مشکل حل ہو تو وہ عوام کو بیدار کریں ۔ ان عوام کو چند   سو سالہ پروپیگنڈے کے ذریعے یقین دلایا گیا ہے کہ امریکہ اور روس کی مخالفت نہیں  کی جاسکتی اور اب دوسری اقوام کو بھی یہی یقین ہے، لیکن انہیں  چاہیے کہ عوام کو سمجھائیں  کہ ایسا ہوسکتا ہے (یعنی امریکہ کی مخالفت کی جاسکتی ہے)۔ اس ممکنہ امر کی سب سے بڑی دلیل، اس کا واقع ہونا ہے، آپ خیال نہ کریں  کہ ایران کی تعداد اور طاقت زیادہ تھی، نہیں  ایسا نہیں  ہے، شاید عراقی قبائل میں  ایران سے زیادہ اسلحہ ہو، لیکن ان کے دماغوں  کو ایک وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے یقین دلا دیا گیا ہے اور اسلام سے مایوس کر دیا گیا ہے، اُن کے دماغوں  میں  یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ ان سپر طاقتوں  کا مقابلہ نہیں  کیا جاسکتا۔

یہ وہ چیز ہے کہ جو خود ان کے اور ان کے کارندوں  کے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ جو ان ممالک کے اندر کیا جاتا ہے۔ پس تمام ممالک کے لوگ کہ جن کا دل اپنی اقوام کیلئے تڑپتا ہے، جو اسلام پر اعتقاد رکھتے ہیں  اور جو اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ، اُن میں  سے ہر ایک اپنے اپنے علاقے میں  اپنی اپنی ملت اور قوم کو بیدار کرے تاکہ یہ ملل اور اقوام کہ جنہوں  نے اپنے آپ کو گم کردیا ہے دوبارہ اپنے آپ کو پا لیں ۔ ان کے اذہان میں  فقط یہی ایک بات ڈالی گئی ہے کہ وہ ان طاقتوں  کا مقابلہ نہیں  کرسکتے، کیونکہ یہ ایسا یا ویسا کردیں گے۔ ہمیں  اقوام اور ملل کے اذہان سے یہ جملہ کہ ’’وہ ان کا مقابلہ نہیں  کرسکتیں  ‘‘ نکال دینا چاہیے اور اس کی جگہ ’’ ان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے‘‘ ڈال دینا چاہیے۔

 مسلمانوں  کی تقریباً ایک ارب آبادی کہ جس کے پاس اس قدر وسیع سر زمینیں  ہیں ، اس قدر زیادہ زیر زمین ذخائر ہیں  اور وسیع ترین اسلامی والٰہی حمایت ہے، اس کے ذہن میں  یہ نہیں  ہونا چاہیے کہ وہ کچھ نہیں  کرسکتے۔ یہ روس جیسی عظیم شیطانی طاقت کہ جو افغانستان کو اپنی پوری قوت کے ساتھ ختم کرنا چاہتی تھی ،نہیں  کرسکی۔ اگر کوئی قوم کسی چیز کو نہیں  چاہتی تو اُسے اُس پر تحمیل نہیں  کیا جا سکتا۔ پس ملت کو بیدار کرنا چاہیے۔

ہماری ملت بھی بیس سال پہلے سوئی ہوئی تھی، متوجہ نہیں  تھی، بیس سال ہوئے ہیں  اسے بیدار کیا گیا ہے، علما وخطبا نے بیدار کیا ہے یونیورسٹیوں  نے بیداری پیدا کی ہے، آہستہ آہستہ مظاہرے ہونے لگے ہیں ، رفتہ رفتہ سڑکیں  پُر ہونے لگی ہیں ، آہستہ آہستہ اللہ اکبر کی صدائیں  بلند ہونے لگی ہیں  اور اس طرح ایک عظیم شیطانی طاقت، اللہ اکبر کے سامنے نہ ٹھہر سکی، جبکہ سب نے چاہاتھا کہ وہ باقی رہے۔ مجھے معلوم تھا کہ سب بڑی طاقتیں  چاہتی تھیں  کہ یہ نوکر (شاہ) ایران میں  باقی رہے کہ جو ان سب کی خدمت کرتا تھا اور ان کا بے چون وچرا خدمت گذار تھا تاکہ ان کے مفادات محفوظ رہیں  اور ہمارے تمام ذخائر کو یہ لوگ مفت میں  حاصل کر لیں ، لیکن اگر قوم اور ملت نہ چاہے تو کچھ نہیں  ہوسکتا۔

 لہذا ملت کو بیدار کرنا چاہیے تاکہ اُن کے خیال سے ’’نہ ہوسکنے ‘‘ کا خیال نکل جائے اور وہ بیدار ہو کر’’ ہو سکنے‘‘ کا یقین کر لیں ۔ ملت کو چاہیے وہ اپنی اپنی حکومتوں  سے تسلیم ہوجانے کا مطالبہ کریں ، ورنہ جو کام ملت ایران نے کیاہے، وہی کام وہ بھی اُن کے ساتھ کریں  تاکہ مشکلات حل ہوجائیں ۔ رکاوٹ بنے ہوئے اشخاص کو راستے سے ہٹائے بغیر مشکل حل نہیں  ہوسکتی، لہذا ان کو راستے سے ہٹا دینا چاہیے۔

(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۸۳(

 

ای میل کریں