اگر ہم حضرت امام کی سیاسی اور مجاہدانہ سب سے پہلی سند سن 1323 ش میں جائیں تو آیت اللہ حکیم کی مجاہدانہ سب سے پہلی سند 30/ ویں دہائی سے مربوط ہے۔ جس وقت پہلوی حکومت نے اسرائیل کو قانونی حیثیت دی تو آقا حکیم نے اس پر اعتراض کیا۔ اسی طرح امام خمینی (رح) کی رہبری میں ایرانی علماء کے مقابلوں کے آغاز کے وقت سن 1340 ش سے آقا حکیم نے حمایت کی اور 15/ خرداد کے دردناک واقعہ میں آقا حکیم نے شاہی حکومت کے اقدام کی مذمت کی۔ اس کے باوجود امام کی نظر میں اگر اجازت دیتے تو شاہی حکومت کے دین مخالف اور روحانیت مخالف سارے اقدامات کو دیگر اسلامی ممالک کے علماء اور مراجع بالخصوص آیت اللہ حکیم کے کانوں تک پہونچادیتے تو یقینا خاموش نہیں بیٹھتے اور اس کے خلاف اقدامات اور اعتراضات کرتے۔
امام خمینی (رح) کے ترکی جلاوطنی ہونے کے بعد آقا حکیم خاموش نہیں بیٹھے اور اپنا رد عمل ظاہر کیا اور آپ نے اپنے 28/ جنوری 1965 ء کو لکھے خط میں حکومت کے اس اقدام پر اعتراض کیا۔
امام خمینی (رح) کے نجف اشرف آتے ہی تو دوسرے ہی دن آیت اللہ حکیم آپ سے ملاقات کرنے جاتے ہیں اور اس ملاقات کے بعد فرماتے ہیں: میں اب تک سمجھ رہا تھا کہ آقا روح اللہ ایک ممتاز طالب علم، سیاست داں، دیندار اور اسلام کے لئے ہمدرد شخص ہیں اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت اندازہ ہوا کہ آپ ایک ہمدرد اور جامع الشرائط فقیہہ ہیں۔