جب امام خمینی (رح) نے شاہ کے فرار کی خبر سنی
مرضیہ حدیدچی دباغ کا کہنا ہے کہ شاہ کے فرار کی خبر سنتے ہی میں امام کی خدمت کی میں حاضر ہوئی اور میں نے ان سے کہا: شاہ فرار ہوگیا ہے! میرے خیال کے برخلاف امام (رح) کے چہرہ پر میں نے کسی قسم کی تبدیلی کا مشاہدہ نہیں کیا اور انہوں نے اس وقت بھی ہمیشہ کی طرح نہایت سکون و اطمینان کی حالت میں فرمایا: بہت خوب۔
فارس نیوز خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہ دی کی ۲۶ تاریخ کو شاہ کے فرار ہونے کے نتیجہ میں ۲۵۰۰ سالہ شہنشاہی حکومت کے ظلم کا خاتمہ ہوا اور اسلامی انقلاب کے بانی یعنی امام خمینی (رح) کا اپنے وطن لوٹنے سے انقلابی کامیابی کی کلیاں کھل گئیں۔
ذیلی عبارت ایک مختصر داستان ہے لیکن نہایت ہی دلچسپ داستان ہے اور یہ داستان ایک انقلابی خاتون کی ہے جو امام خمینی (رح) کی جلاوطنی میں ان کے ساتھ ساتھ تھیں۔ ایسی داستان ہے جو ایرانی قوم کی جانفشانی و پائداری پر مبنی ہے جس نے پہلوی استبداد و ظلم کا خاتمہ کیا اور اس نے شاہ کو دم دباتے ہوئے ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔
مرضیہ حدیدچی نے فارس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ جس دن شاہ ایران سے فرار ہوا اس دن میں فرانس میں حضرت امام خمینی (رح) کی خدمت میں حاضر تھی البتہ یہ خدا کا لطف میرے شامل حال تھا کہ اس نے مجھے امام خمینی (رح) جیسی عظیم الشان شخصیت کی خدمت کا موقع دیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا: شاہ کے فرار ہونے کی خبر اس دن پوری دنیا میں تمام اخباروں میں سر فہرست تھی اور ہم سب خوش ہو رہے تھے اور ہماری مسرت کا یہ عالم تھا کہ ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے لہذا میں اس پیغام کو امام (رح) کی خدمت میں پہونچانے کے لئے بیتاب تھی کیونکہ ہم سب یہ سوچ رہے تھے کہ وہ بھی جب اس خبر کو سنیں گے تو یقیناً خوشی کا اظہار کریں گے۔ میں اسی خیال سے امام (رح) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے ان سے عرض کیا: آقا، شاہ فرار ہوگیا! میرے تصور کے برخلاف اس خبر کے نتیجہ میں امام (رح) کے چہرہ پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور انہوں نے ہمیشہ کی طرح نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ فرمایا: بہت خوب۔ اور انہوں نے اس سلسلہ میں کسی طرح کے رد عمل کا اظہار نہ کیا۔
وہ بیان کرتی ہیں: مجھے امام (رح) کی خاموشی پر بہت تعجب ہوا لیکن مجھے پتہ چل گیا کہ یہ خبر اس بات کو عیاں کر رہی ہے کہ امام خمینی (رح) کو شاہ کے فرار کے سلسلہ میں مکمل یقین تھا اور اگر اس سے ہٹ کر کوئی واقعہ رونما ہوتا تو مجھے تعجب کرنا پڑتا۔
وہ انقلابی خاتون اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں: اس خبر کے پھیلنے کے بعد فرانس کا سرکاری میڈیا شاہ کے فرار کے سلسلہ میں امام خمینی (رح) کی اظہار نظر دریافت کرنے کے لئے ان کے گھر کے سامنے جمع ہوگیا۔ جب میں نے یہ موضوع امام (رح) کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے فرار شاہ کے سلسلہ میں اظہار نظر کو دن کے پانچ بجے پر موکول کردیا۔
حدیدہ چی دباغ کہتی ہیں: چونکہ ماہ تیر کی تیسویں تاریخ کا واقعہ( ایک ایسا واقعہ ہے جو عصر حاضر میں ایرانی ثقافت میں ماہ تیر کی ۳۰ ویں تاریخ کے واقعات کی جانب اشارہ کرتا ہے جو اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کے دور میں پورے ایران میں رونما ہوا جسے "نہضت ملی شدن نفت" کا نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس واقعہ میں حفاظتی دستوں اور عوام کے درمیان کافی ٹکراؤ ہوا) بھی امام خمینی (رح) کے ذہن میں تھا اور یہ احتمال بھی پایا جاتا تھا کہ شائد شاہ کو ایران دوبارہ لوٹانے کے لئے استعامری طاقتوں نے کوئی منصوبہ اختیار کیا ہو کیونکہ استعماری طاقتیں ہرگز شاہ کے فرار کی خواہاں نہیں تھیں اور وہ اپنے اہداف و مقاصد کے پیش نظر شاہ کی طرفدار بھی تھیں۔ لہذا امام (رح) نے اپنی عمیق نگاہ و دور اندیشی سے فرارِ شاہ کے سلسلہ میں اظہار نظر کو دن کے پانچ بجے پر موکول کر دیا اور آخر کار انہوں میڈیا کے سامنے اپنی رائے کو تحریری شکل میں پیش کیا۔
وہ کہتی ہیں: اس وقت انقلاب کے عظیم الشان رہبر حضرت آیت اللہ خامنہ ای امام خمینی رح) کے راستہ پر چل رہے ہیں اور جس تحریک کی بنیاد امام خمینی (رح) نے ڈالی تھی وہ آج اسی تحریک کو دوام بخش رہے ہیں لہذا عصر حاضر میں آیت اللہ خامنہ ای امام خمینی (رح) کے حقیقی جانشین ہیں اور ان کی اطاعت ہمارے اوپر ایک شرعی ذمہ داری کے عنوان سے ہے اور موجودہ دور میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم رہبر کے عنوان سے ان کی اطاعت کریں۔
مرضیہ حدیدچی ۱۳۱۸ ہ،ش میں پیدا ہوئیں اور وہ ایک انقلابی خاتون ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ۱۳۴۶ ہ،ش میں کیا اور انہیں ساواکی حکومت نے کئی بار قیدی بنایا اور انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ پہلوی حکومت کے خفیہ جیلوں میں کافی مشکلات کا سامنا بھی کیا۔
یہ انقلابی خاتون قید سے آزادی کے بعد ایران سے باہر یعنی فرانس میں بھی امام خمینی (رح) کی حفاظت کے عنوان سے ان کے ساتھ رہیں۔ اس کے علاوہ سپاہ ہمدان کی سربراہی، مجلس شورائے اسلامی کی نمائندگی وغیرہ وغیرہ ذمہ داریاں بھی ان کے کاندھوں پر رہی ہیں۔