امریکی صدر نے شام سےفوجی انخلا کا اعلان کیوں کیا؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عنقریب درپیش دو چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد کیلئے شام اور افغانستان سے فوجی انخلاء پر مبنی غیر متوقع فیصلہ انجام دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر انتہائی غیر متوقع اور عجیب پیغام ارسال کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ بہت جلد شام سے اپنے تمام فوجی واپس بلا لے گا۔ انہوں نے یہ پیغام بدھ 19 دسمبر کی صبح 9 بج کر 29 منٹ پر بھیجا۔ اسی طرح انہوں نے جمعہ 20 دسمبر کے دن صبح 6 بج کر 42 منٹ پر ایک اور پیغام بھیجا اور دوبارہ اپنے گذشتہ موقف پر تاکید کی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا: "شام سے فوجی انخلاء کوئی عجیب بات نہیں۔ میں نے کئی سال اس پر کام کیا ہے اور چھ ماہ قبل اعلانیہ طور پر اس کا اظہار کر چکا ہوں۔ روس، ایران، شام اور دیگر ممالک داعش کے علاقائی دشمن ہیں۔ ہم شام میں ان کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اب اپنے گھر واپس لوٹنے اور اس کی تعمیر نو کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔" امریکی صدر کے اس اعلان نے امریکہ کے سیاسی حلقوں میں ہلچل برپا کر دی ہے۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ جمعرات سہ پہر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اور اپنا استعفی انہیں پیش کر دیا۔ کچھ دیر بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان سے بھی اپنی آدھی فوج (تقریباً سات ہزار فوجی) وطن واپس بلا رہے ہیں۔
ان خبروں کے بعد بعض سیاسی حلقوں میں یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام اور افغانستان سے فوجی انخلاء کا مقصد خطے میں اپنے اتحادیوں یعنی اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ کے تعاون سے ایران کے خلاف زیادہ سخت اقدام مثلاً فوجی اقدام انجام دینا ہے۔ یہ انتہائی کمزور مفروضہ ہے۔ خطے کی آج کی صورتحال کل جیسی نہیں اور ماضی کی فوجی آرائش بھی باقی نہیں رہی۔ معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی رسوائی اور امریکی سینیٹ کی جانب سے سعودی ولیعہد کے خلاف قرارداد کی منظوری کے بعد امریکی اور سعودی حکام کے تعلقات میں کشیدگی آئی ہے جس کے باعث خطے میں سیاسی اور فوجی انتظام میں بھی انتہائی اہم اور بنیادی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ ایران کے خلاف کسی شدید کاروائی کا مقدمہ ہوتا تو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کی لابی کے افراد جیسے جان بولٹن اور امریکی صدر کی سکیورٹی ٹیم اس کا خیرمقدم کرتی اور اپنی خوشی کا اظہار کرتی لیکن ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔
امریکہ میں اسرائیل کی سب سے بڑی اور اہم لابی یعنی "فاونڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز" نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر اپنے شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس فاونڈیشن نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں امریکی صدر کے اس فیصلے کو "ایران کی سب سے بڑی کامیابی" قرار دیا ہے اور اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے صدر کو پیش کئے جانے والے اپنے استعفی میں لکھا ہے: "ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط اتحاد باقی رکھے بغیر اپنے مفادات کا تحفظ یا موثر کردار ادا نہیں کر سکتے اور ان کا احترام بھی نہیں کر سکتے۔" ایسا دکھائی دیتا ہے کہ "اتحادیوں" سے امریکی وزیر دفاع کی مراد اسرائیل ہے نہ حتی برطانیہ جو شام سے امریکی فوجی انخلاء پر ناراض ہے۔ اسی طرح اس سے مراد سعودی عرب جیسے اتحاد بھی نہیں جو ان دنوں بہت ہی بے حیثیت ہو چکے ہیں۔ بعض امریکی اور برطانوی تجزیہ کاروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو ترکی سے خفیہ معاہدے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ترکی نے شام کے کرد اکثریتی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کرنے اور امریکہ سے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کی جگہ روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کی دھمکی لگا رکھی ہے۔
بہرحال موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات غیر متوقع ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے اس اچانک فیصلے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ بہت جلد (3 جنوری سے) نئی کانگریس اپنے کام کا آغاز کرنے والی ہے۔ بہت جلد صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو بڑے بحرانوں سے روبرو ہونے والے ہیں جن میں سے ایک "مالی بحران" جبکہ دوسرا "کانگریس کا بحران" ہے۔ جب 116 ویں کانگریس اپنے کام کا آغاز کرے گی تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ شدید چیلنجز سے روبرو ہوں گے۔ ایوان نمائندگان میں ان کی مخالف پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ جلد ہی 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت پر مبنی رابرٹ مولر کی رپورٹ بھی آنے والی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عنقریب درپیش ان دو چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد کیلئے شام اور افغانستان سے فوجی انخلاء پر مبنی غیر متوقع فیصلہ انجام دیا ہے۔ وہ اپنی صدارتی مہم کے دوران بارہا اس بات پر زور دے چکے تھے کہ امریکی شہریوں کے خرچے پر امریکی فوجی دوسروں کے مفادات کے تحفظ کیلئے شام اور افغانستان میں تعینات ہیں جنہیں میں واپس بلاوں گا۔