اسلامی انقلاب امام خمینی (رح) کی نگاہ میں
امام خمینی (رح) اسلامی انقلاب کے بانی و معمار ہونے کے عنوان سے معتقد ہیں کہ ایران کا اسلامی انقلاب ایرانی قوم کے ذریعہ برپا ہونے والا سب سے بالا و برتر اور قیمتی انقلاب ہے جو عصر حاضر سے کر ہمیشہ کے لئے باقی رہے گا۔
اسلامی شان و شوکت سے لبریز انقلاب کی اہمیت اس قدر عظیم الشان ہے جسے قلم و بیان کے ذریعہ مرقوم نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ عظیم الشان انقلاب خدائی غیبی امداد کے ذریعہ کامیاب ہوا اور اس نے استعماری طاقتوں اور ستمگروں کو ایران سے دور کردیا۔ اگر خداوندمتعال کی امداد نہ ہوتی تو ایرانی قوم ملک کی ترقی و پیشرفت میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو پاتی کیونکہ گذشتہ سو سالوں میں اسلام و علماء کے خلاف پروپگنڈے ہر عام و خاص کی زبان پر تھے نیز مجالس و محافل اور نشریاتی و خطابتی پہلو میں بھی قوم و ملت اور اسلام کے خلاف سرگرمیاں ہورہی تھیں، نیز اشعار و غزلوں کی صورت میں اور عیاشی و فخشاء و قمار و نشیلے مراکز بھی نوجواں نسل کو برباد کرنے کے لئے سرگرم تھے۔ اس سے ہٹ کر خائن شاہ کے مفاسد نیز حکومتوں اور بیرونی ایمبسیوں کی جانب سے فرمائشی محافل بھی ایرانی قوم پر تھونپی گئی تھیں اور سب سے بدتر یہ کہ یونیورسٹیز، اسکولز اور علمی مراکز وغیرہ میں اساتید بھی یا مغربی دنیا اور یا مشرقی دنیا کی تبلیغات کرتے ہوئے اسلام،اسلامی کلچر اور قوم و ملت کے خلاف سر گرم تھے اگرچہ ان میں بعض افراد ایسے بھی پائے جاتے تھے کہ جو دینداری کا ثبوت دیتے ہوئے دلسوزی کا اظہار کرتے تھے لیکن ان کی تعداد کم ہونے کہ وجہ سے وہ کوئی مثبت کام نہیں انجام دے سکتے تھے۔ مذکورہ تمام چیزوں اور دیگر دسیوں مسائل، بالخصوص علماء کو گوشہ نشینی پر مجبور کرنے اور ان میں سے اکثریت کو فکری طور پر منحرف کرنے کی وجہ سے ہرگز ممکن نہیں تھا کہ ایسی صورت حال میں قوم قیام کرپائے اور پورے ملک میں ایک انداز میں اللہ اکبر کی فریاد بلند کرتے ہوئے حیرت انگیز فداکاریوں کے ذریعہ اندرونی و بیرونی تمام طاقتوں کو راستے سے ہٹا دے اور وہ خود ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے۔
اس بنا پر کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کہ اسلامی انقلاب تمام انقلابوں سے ہٹ کر ہے، چاہے وہ انقلاب برپا کرنے، محاذ آرائی کی کیفیت، انقلاب کے مقصد اور قیام وغیرہ کیوں نہ ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک خدائی اور غیبی تحفہ تھا جو خداوندمتعال کی جانب سے اس غارتزدہ اور مظلوم قوم کو عطا کیا گیا تھا۔
اسلام اور اسلامی حکومت خدائی تحفہ ہے جس کے ذریعہ ہماری اولاد کی دنیوی اور اخروی سعادت بہترین انداز میں حاصل ہوسکتی ہے اور اس میں اتنی طاقت پائی جاتی ہے کہ ستمگری، فسادات اور ظلم کو جڑ سے اکھاڑ دے اور تمام انسانوں کو اپنے مقاصد تک پہونچائے۔ غیر توحیدی مکاتب کے برخلاف یہ ایک ایسا مکتب ہے جو انفرادی، اجتماعی، مادی، معنوی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی تمام پہلوؤں میں مداخلت کرتے ہوئے نظارت بھی رکھتا ہے۔ اور اس نے انسانی و معاشراتی تربیت اور مادی و معنوی ترقی میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں رکھی نیز اس نے انفرادی و اجتماعی پہلو میں تکامل کے راستے میں موجودہ تمام مشکلات و موانع کو گوشزد کرتے ہوئے انہیں برطرف کرنے کی کوشش کی ہے۔ خداوندمتعال کی امداد و توفیق کے نتیجہ میں دیندار و بہادر قوم نے اسلامی جمہوریت کی بنیاد ڈالی ہے اور اس حکومت میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ اسلام اور اس کے پیشرفتہ احکام ہیں لہذا اب ایرانی قوم کی ذمہ داری ہے کہ اس کی پاسداری و حفاظت کرے کیونکہ اسلام کی حفاظت تمام واجبات میں سرِ فہرست ہے جس کی راہ میں جناب آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک تمام انبیائے کرام مکمل کوشش و جانثاری سے کام لیا ہے اور اس عظیم الشان فریضہ میں ان کا کوئی رکاوٹ نہ بن سکا اور ان کے بعد ان کے اصحاب و ائمہ اطہارؑ نے اپنی قربانیاں پیش کرتے ہوئے اس کی حفاظت میں کوشش کی ہے اور آج بالخصوص ایرانی قوم اور بالعموم تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ ایران میں اس امانتِ الہی کی حفاظت اور اس کی راہ میں موجودہ موانع و رکاوٹوں کو برطرف کرنے میں کوشاں رہیں جس کے نتائج کچھ ہی عرصہ میں سامنے آنے والے ہیں۔ اور امید ہے کہ اس کا نور تمام اسلامی ممالک پر سایہ فگن ہو اور تاریخی عالمی طاقتوں و جنایتکاروں سے ہمیشہ کے لئے دنیا کے مظلوموں اور ستمدیدہ افراد کو نجات دلائیں۔
یقیناً اسلامی انقلاب کی بقا کا راز اس کی کامیابی میں پوشیدہ ہے اور کامیابی کا راز قوم کو معلوم ہے اور تاریخ میں آئندہ نسلیں بھی پڑھیں گی کہ اس کے دو رکن ہیں ایک خدائی مقصد اور اسلامی حکومت کا عالی مقاصد۔ دوسرے پورے ملک میں اسی مقصد کے تئیں قوم کا اجتماع۔
موجودہ صدی بالخصوص موجودہ دہائیوں میں انقلاب کی کامیابی کے بعد جو چیز نمایاں ہے وہ مختلف سازشیں ہیں، مختلف پہلوؤں میں قوموں اور خاص طور پر ایرانی فداکار قوم کو اسلام سے مایوس کرنے کے لئے پروپگنڈے ہیں۔ بعض اوقات واضح طور پر یہ تبلیغ کی جاتی ہے کہ اسلامی احکام ۱۴۰۰ سال پہلے وضع ہوئے ہیں اور موجودہ دور میں ملکوں کو ان کے تحت نہیں چلایا جا سکتا یا یہ کہ اسلام ایک قدامت پسند دین ہے جو ہر قسم کی نوآوری اور تمدن و پیشرفت کا مخالف ہے موجودہ دور میں عالمی تمدن و پیشرفت سے ہرگز دوری نہیں کی جاسکتی اس طرح کی شیطنت آمیز تبلیغات کی جا رہی ہیں جن میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اسلام ترک دنیا اور عبادت و اذکار و ادعیہ کی دعوت دیتا ہے اور انسان کو خدا کے قریب لیکن دنیا سے دور کرتا ہے اور حکومت و سیاست اس طرح کے معنوی مقاصد سے ہٹ کر ہے کیونکہ یہ سب دنیا کو آباد کرنے کے لئے ہیں اور اسلام اس کے خلاف ہے افسوف کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی تبلیغ بعض علماء پر بھی اثر انداز ہوئی ہے حتی وہ حکومت اور سیاست میں مداخلت کو گناہ اور فسق کے برابر سمجھتے ہیں۔
لہذا میں ایرانی قوم کو وصیت کرتا ہوں کہ اے مجاہد قوم جس مقصد کے لئے تم نے قیام کیا ہے اور اس کے لئے جان و مال کو بھی قربان کر رہے ہو یہ بہت بڑا اور عظیم الشان مقصد ہے اور یہ ایسا مقصد ہے جو ابتدائے کائنات سے لے کر اس کی انتہا تک باقی رہے گا اور وہ مقصد اپنے وسیع معنی و بلند پہلوؤں میں مکتب الوہیت اور توحید ہے اور یہ چیز مکتب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اپنے مکمل معنی اور پہلوؤں میں جلوہ نما ہے نیز تمام انبیاء عظام و اولیائے کرام نے اسی مقصد کو پانے کی کوشش کی ہے اور کمال مطلق و جلال مطلق تک پہونچنے کا راستہ یہی ہے یہی وہ راستہ ہے جس نے اہل زمین کو اہل آسمان پر برتری بخشی ہے اور اہل زمین کو اسے طے کرنے سے جو حاصل ہوتا ہے وہ پوری کائنات میں کسی موجود کو حاصل نہیں ہوتا۔