8/ ربیع الاول سن 260 ھ ق کو مشہور قول کی بنا پر شیعوں کے گیارہویں امام اور پیشوا، رسولخدا (ص) کے جانشین اور معصوم امام حضرت ابو محمد حسن بن علی عسکری (ع) کی شہادت ہوئی ہے۔ اس وقت کا خلیفہ معتمد علی اللہ احمد بن جعفر متوکل تھا۔ کیونکہ معتمد عباسی معاشرہ میں امام کے روحانی اثر و روسوخ سے مسلسل پریشان اور گھبرایا ہوا تھا اور جب اس نی دیکھا کہ ان کا معاشرہ اور عوام میں اثر و رسوخ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے تو اس نے آپ کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے زندان میں ڈال دیا اور آپ پر کڑی نظر رکھنے کا حکم دیا۔
ظالم و جابر اور فاسق و فاجر بے دین اور بے ایمان حکام اور لوگوں کو اپنے اقتدار کا خطرہ لگا رہتا ہے کہ کہیں لوگ ہمارے کردار اور ناپاک ارادوں کو بھانپ نہ لیں اور ہمارا کام تمام ہوجائے لہذا وہ اپنی حکومت، اپنی کرسی اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے گھناونی سے گھناونی حرکتیں کرتا اور نت نئے مظالم ڈھاتا ہے اور کسی کو لالچ سے کسی کو خوف و ہراس سے اور کسی کو مقام و منصب سے اپنے قریب رکھتا ہے تا کہ اس کا اقتدار باقی رہے۔ اور جب یہ دیکھتا ہے کہ میری حکومت کو فلاں سے خطرہ ہے، فلاں میری حکومت کو چیلنج کررہا ہے اور اس کی وجہ سے میرا اقتدار ختم ہوسکتا ہے تو پھر اس پر اپنا شکنجہ کسنے لگتا ہے اور دھیرے دھیرے اپنی ہوس کی آپ بجھانے کے لئے اس کا خون کردیتا ہے۔
ایسا ہی ہمارے ائمہ (ع) اور خدا رسیدہ بندوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور امام حسن عسکری (ع) کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ ملعون آپ (ع) کو زہر دلوانے کے بعد بھی سکون سے نہیں بیٹھا بلکہ اس نے دس مشہور علماء کو بلا کر آپ کے گھر روانہ کردیا تا کہ لوگوں میں یہ پیغام دے کہ حاکم نے زمانہ کے مشہور علماء کو آپ کی دیکھ بھال اور تیمار داری اور دلداری کے لئے بھیجا ہے جبکہ اس کا ناپاک ارادہ یہ تھا کہ اس طرح سے آپ پر اور آپ کے یہاں آمد وشد پر مکمل نظارت ہوتی رہے اور اپنی حکومت کے لئے خطروں کا سد باب کرسکے۔
جب آپ (ع) کی شہادت ہوگئی اور شہر سامراء میں یہ خبر پھیل گئی تو شہر میں قیامت برپا ہوگئی۔ تمام لوگوں نے نالہ و شیون بلند کردیا۔ ہر طرف سے گریہ و زاری اور آہ و بکا کی آوازیں آنے لگیں۔ خلیفہ ملعون، آپ (ع) کے فرزند کی جستجو میں لگ گیا۔ کچھ لوگوں کو آپ کے گھر کے اطراف میں جاسوس بنا کر بھیجا تا کہ تمام حجروں کی تلاشی لیں اور مہر تایید لگائیں۔ شاید آپ کے فرزند کو تلاش کرنے میں، کچھ خواتین کو بھیجا تا کہ آپ (ع) کی کنیزوں کی تلاشی لیں کہ کہیں کوئی حمل تو نہیں ہے۔ ایک عورت نے کہا کہ ان کی ایک کنیز میں حمل کا احتمال ہے۔اس کے بعد جنازہ کی تیاری کرنے لگے، شہر کے سارے بازار بند ہوگئے اور خالق کے اس برگزیدہ بندہ کی تشییع جنازہ میں چھوٹے بڑے، پست و بلند لوگ شریک ہوئے۔ سامراء میں سوگ اور عزا کا ماحول قائم ہوگیا، سارے لوگ سروسینہ پیٹنے لگے۔ عالم انسانیت سوگوار اور گریہ کناں ہوئی۔ علم و اخلاق، فضیلت و شرافت کا پیشوا نہ رہا۔ پرچم ہدایت گرادیا گیا۔ حکومت کا خطرہ ٹلا اور اب حکومت آپ کے جانشین کے بارے میں تحقیق و جشتجو کرنے لگی کہ ان کا کوئی فرزند ہے یا نہیں۔
جب آپ کے جنازہ پر نماز پڑھانے کا وقت آیا تو جعفر کذاب کھڑا ہوگیا اتنے میں لوگوں نے دیکھا کہ یوسف کے مانند ماہ تاباں ایک بچہ نمودار ہوا اور چچا جعفر کے پاس جا کر بولا : چچا! کنارہ جائیں اور آپ(عج) نے اپنے والد بزرگوار کے جنازہ پر نماز پڑھی اور غائب ہوگئے۔