تنقید

شاگردوں کو تنقید کے مواقع فراہم کرنا

درس میں بیان ہونے والی ہر بات کو قبول نہ کریں بلکہ ان کا طریقہ کار طریقہ قرآنی ہونی چاہیئے

امام خمینی (رح) خود اپنی اصطلاح کے مطابق جب بھی فقہی بحث  میں داخل ہوتے تو ایک مستقل اور مکمل بحث کیا کرتے، زیر بحث مسئلہ کو بڑی وقت اور عمق فکری کے ساتھ بیان کرتے اور اس پر تنقید کے ساتھ ساتھ مختلف مفکرین کے اقوام کی روشنی میں اس کی حقیقت تک رسائل حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی تھی کہ آپ جو کچھ بھی پڑھائیں وہ طلبہ پرور اور ان کی فکری سطح کو وسیع کرنے والا ہونا چاہیئے۔ اس لئے آپ، ہمیشہ طلاب کو یہ فرصت دیتے تھے کہ وہ آپ کے درس پر اشکال کریں۔

حتی ایک دن آپ نے فرمایا: مرحوم شیخ عبدالکریم کا بیان ہے:

ایک طالب علم نے میرا پڑھایا ہوا درس، لکھ کر مجھے دکھایا، جب میں نے دیکھا تو اسے کہا: تو نے درس تو بہت اچھا لکھا لیکن اے کاش! صفحہ کے آخر پر میری گفتگو پر کوئی اشکال بھی لکھ کرلے آتا! اور اگر تیری نظر میں کوئی اشکال نہیں آرہا تھا تو کم از کم بیہودہ جملہ ہی لکھ دیتا!

ان داستانوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے شاگرد بالکل آنکھیں بند کرکے، درس میں بیان ہونے والی ہر بات کو قبول نہ کریں بلکہ ان کا طریقہ کار طریقہ قرآنی ہونی چاہیئے لہذا آپ یہ سفارش فرمایا کرتے تھے: بزرگوں کی شخصیتوں سے متاثر ہوکر ان کی بات کو آنکھیں بند کرکے قبول نہ کر لینا بلکہ مسائل علمی میں، ہمیں دلیل، برہاں اور استدلال کا پیرو ہونا چاہیئے۔

یہی وجہ تھی کہ دوسرے اساتید کی نسبت، آپ کے شاگردوں کی فکری سطح سب سے بلند تھی کیونکہ آپ کے دروس میں شاگرد کے پاس سوال کی آزادی کے ساتھ ساتھ تنقید و اشکال کے مواقع بھی موجود تھے اور حتی آپ اس بات کا تقاضا کیا کرتے تھے اور تنقید کرنے والے کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ جب ہم آپ کے درس خارج کی کلاسز میں شرکت کرتے تھے تو صرف آپ کی طرف سے ہونے والی حوصلہ افزائی کی وجہ سے، فقہی قواعد کے عنوان سے ہم، آپ کے درس میں کی جانے والی معاملات کی بحث کی تفسیر اور شرح کیا کرتے تھے۔ ایک دن درس کے بعد مسجد سے گھر کی جانب آتے وقت، فرصت پاکر میں نے عرض کی: آقا! میں نے آپ کے دروس میں بیان ہونے والی کچھ بحثوں کو لکھا ہے اگر اجازت ہو تو آپ کی خدمت میں لے آؤں؟

آپ نے مثبت جواب دیا اور میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ سات یا آٹھ دنوں کے بعد، آپ نے میری تحریر مجھے واپس کی۔ میں نے دیکھا کہ اس رسالے کو آپ نے بڑے غور سے پڑھا ہے اور اس میں موجود، اشکالات کو بڑی دقت سے لکھا ہے۔ لہذا آپ کا یہ رویہ ہمارے لئے ایک بہت بڑی خوشی کی بات تھی۔ اس کے بعد آپ نے مجھے فرمایا:

یہ جو آپ نے اپنی شرح میں اشکال کیے ہیں میں ان پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ " امام کے اس رویہ سے ہم نے خود پر لازم سمجھ لیا تھا کہ امام کے دروس میں بیان ہونے والی تمام بحثوں کو شروع سے آخر تک لکھیں۔

*حجت الاسلام والمسلمین محمد سجادی اصفہانی

ای میل کریں