امام خمینی (رح) نے جو دستورات دوسروں کو دیے، ہمیشہ پہلے خود ان پر پابندی سے عمل کیا،یہاں تک کہ آپ (رح) اپنے فرامین کا خود ہی بہترین عملی نمونہ تھے، آپ نے اپنی جوانی میں کتاب (چہل حدیث) لکھی، جس میں اگر، آپ نی ریاکاری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس کی نکوہش کی تو پہلے خود اس سے اجتناب کیا۔ اس مقام پر مجھے امام (رح) کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے کہ جب ایک دن میرا بیٹا حسن گھر میں داخل ہوا اور ان کی شلوار کا پائنچا ادھڑا ہوا تھا کہ جسے بعد میں، میں نے سی بھی دیا جیسے ہی امام (رح) کی نظر اس پر پڑی تو مجھ سے پوچھا: "حسن اس قدر غیر منظم کیوں ہے"؟ میں نے آپ سے مزاح کی خاطر عرض کی: یہی ہے آقا! جو آپ دیکھ رہے ہیں، کیونکہ تنگدستی اور غربت کی زندگی ایسے ہی ہوتی ہے۔ اسی وقت آپ کے تیور بدل گئے اور فرمایا: کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ریاکاری کررہی ہوں۔ میں نے کہا: بھلا میں ریاکاری کیوں کروں گی؟
آپ نے فرمایا: آپ اس بات کا خصوصا خیال رکھیں کہ اپنے امور کی انجام دہی میں، اگر آپ کا مقصد دکھاوا اور ریاکاری نہ ہو تو پھر یہ بات خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے اور اگر آپ دوسروں کو یہ دکھانا چاہیں کہ ہم اس قدر سادہ زیست ہیں تو یاد رکھو یہ ریاکاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علوم چاہے دینی ہوں یا غیر دینی، نیک اعمال (یعنی ایسے اعمال جو کہ خلوص، عقل اور شریعت پر مبنی ہوں) کے ساتھ دل کو نورانی اور مہذب بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب کلمہ "لاالہ الا اللہ" دل میں اتر جائے تو اس کے بعد اگر کوئی شہوت انگیز منظر بھی انسان کی نظروں کے سامنے آجائے تو وہ خدا کو لبیک اور خواہش نفسانی کہ جو اسے شہوت انگیز منظر کو دیکھنے اور اس سے لذت حاصل کرنے کی دعوت کررہی ہے اسے "لا" یعنی نہیں کہے گا۔ یہ "ہاں" اور "نہ" صرف اس حرام منظر کو دیکھنے یا پھر اس موقع پر اپنی آنکھوں کو جھکالینے سے عملا ظاہر ہوتے ہیں اور اسی طرح اگر انسان، مسلسل نیک اعمال انجام دیتا رہے تو ایک دفعہ نور توحید انسان کے دل پر اپنا غلاف چڑھا دے گا اور اسے مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اور دوسری طرف مادی علوم کی مثال بھی اسی طرح ہی ہے کہ اگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ انسان اعمال صالح بھی انجام دے تو اس وقت وہ مادی علوم بھی نورانیت قلب کا وسیلہ بن جائیں گے مثلا علوم مادی کے ذریعے خلوص نیت کے ساتھ خدمت خلق کرنا بھی نورانیت قلب کا ذریعہ ہے۔