امام خمینی(رح) نے پریس کا انتخاب کیوں کیا؟
ہمارا ارادہ بھی یہی تھا کہ ہم پہلے کویت اور اس کے بعد شام کا رخ کریں ، پیرس جانے کے بارے میں ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا شائد کچھ ایسے مسائل تھے جن میں ہمارے ارادہ کی کوئی مداخلت نہیں تھی"۔(صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۱۹۶)
امام خمینی پورٹال کے مطابق اسلام میں ہجرت اجتماعی و سیاسی پہلو ؤں میں بنیادی و اصلی و مؤثر مفاہیم میں سے ہے نیز سیاسی و خدائی تحریکوں میں بھی اس کا اہم کردار ہے جیسا کہ رسول اکرمؐ کی تاریخ ساز ہجرت اسی امر کو بیان کررہی ہے۔
اگرچہ ہجرت کا ظاہری پہلو ایک اعتبار سے دشمنوں کے ظلم و ستم کا بیان گرہے اور اس کا ظاہرگھر، بار،خاندان و اموال ترک کردینے میں پوشیدہ ہے اور بعض اوقات اس چیز کا امکان پایا جاتا ہے کہ ابتدا میں شاید احساس شکست یا کم از کم تحریک کا خاتمہ اور پیروکاروں میں ناامیدی کا خوف ایجاد ہو لیکن جیسا کہ تاریخی تجربیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت عام طور پر محاذ آرائی میں شدت اورجلد کامیابی کے حصول کا سبب بنتی ہے۔
اسلامی انقلاب اور امام خمینی(رح)کی تحریک نے بھی دونوں ہجرتوں کو طے کیا ہے نجف اشرف میں امام خمینی(رح)کی ہجرت اگرچہ اجباری طور پر ان کی جلاوطنی کی صورت میں تھی لیکن جیسا کہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس جلاوطنی کے نتیجہ میں امام (رح)کواپنی گہری و نامحسوس تحریک کے رشد و نمو کے لئے تاریخی موقع فراہم ہوا۔
نجف میں عراق کی بعثی فوج نے امام خمینی(رح)کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا لیکن پھر بھی امام (رح) نے محاذ آرائی سے ہاتھ سے نہیں کھینچا آخر کار عراق حکام نےایرانی حکومت کے اشاروں پر امام خمینی (رح) کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا امام (رہ) نے بھی اس فیصلہ کے بعد کویت کا ارادہ کیا لیکن انہیں کویتی حکومت کی جانب سے ممانعت کا سامنا کرنا پڑا لہذا فوراً بعض دوستوں کی رائے کے مطابق انہوں نے پیرس ہجرت کی۔خود امام خمینی(رح)اس بارے میں فرماتے ہیں:ہمارا ارادہ بھی یہی تھا کہ ہم پہلے کویت اور اس کے بعد شام کا رخ کریں ، پیرس جانے کے بارے میں ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھاشائد کچھ ایسے مسائل تھے جن میں ہمارے ارادہ کی کوئی مداخلت نہیں تھی"۔(صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۱۹۶)
واضح رہے کہ اس تاریخی ارادہ میں خدائی خفیہ الطاف کا کردار دوبارہ ظاہر ہوا اور امام خمینی(رح)کو جہاں جانا تھا وہیں انہیں پہونچایا گیا اور ہم سب نے انقلاب کی کامیابی میں اس ہجرت کے مؤثر اور نمایاں کردارکا مشاہدہ کیا۔
ادھر عراق سے ہجرت کرتے وقت عراقی حکام نے امام خمینی(رح)کو ایک پیشکش دی جس میں انہوں نے امام (رہ) سے فرمایا کہ عراق آپ کا دوسرا گھر ہے ہم چاہتے ہیں آپ یہاں رکیں لیکن آپ کو اپنی سیاسی سرگرمیاں ختم کرنا ہوں گی جس کے جواب میں امام خمینی(رح) نے ایک معروف جملہ فرمایا یہ میری ذمہ داری ہے اگر میں کشتیوں پر رہوں اور ایک ہوائی اڈے سے دوسرے ہوائی اڈے پر جاوں پھر شاہ کے خلاف محاذ آرائی سے ہاتھ نہیں کھینچوں گا ۔
پیرس میں امام خمینی(رح)کے داخل ہوتے ہی فرانسی حکومت کے نمائندوں نے امام(رح)سے ملاقات میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمی سے پرہیز کا مطالبہ کیا تو امام(رح)نے اس کی شدید مخالفت کی، اس کے نتیجہ میں فرانسی حکومت نے امام(رح)کو ملک سے نکالنے کا ارادہ کیا لیکن شاہی حکومت کے سیاسی نمائندوں نے اس کام کے نتیجہ پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کیالہذا اس نے امام (رح)کی جلاوطنی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ شاہی حکومت کا خیال تھا کہ اگر امام(رح)فرانس میں رہیں گے تو وہ مرکزِ محاذ آرائی سے دور اور دنیائے اسلام سے بھی دور رہیں گے جس کے نتیجہ میں وہ بہت جلد ذہنوں سے مٹ جائیں گے لیکن ہم نے مشاہدہ کیا کہ کیسے ان کی سازش و مکاری نے خود انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ویرانی کے جلد مقدمات فراہم کئے لہذا پیرس میں نوفل لوشاٹوی نامی جگہ امام(رح)کی تاریخ ساز ہجرت،پیغام ِ امام اور انقلاب کے عالمی ہونے کا سبب بنی ۔ نوفل لوشاٹو میں بڑی بڑی جانی و مانی شخصیات کی رفت و آمد اور میڈیا ، ایران اور پورے عالم میں ان کی چاہنے والوں تک امام(رح)کے پیغام پہونچنے میں آسانی کا سبب بنے۔ امام(رح)اور انقلاب کے سلسلہ میں عالمی حمایت میں مزید اضافہ ہوا اور ۴ مہینے امام(رح)کی سکونت کے بعدکامیابی کے ساتھ ان کے وطن لوٹنے کے لئے شرائط فراہم ہوگئے اور ایک نئی تاریخ ساز ہجرت تاریخ اسلام و جہان میں اوراقِ تاریخ میں قید ہوگئی۔