واقعہ کربلا میں خواتین کا کردار
قرآن مجید کلام الہٰی ہے اور اس پاک اور منزہ کتاب میں ہر انسان کے مقامات اور مرتبت کا قانون کلیہ موجود ہے۔اسی لیے قرآن نے خواتین کو بھی بہت بلند مقام سے نوازا ہے، اس نے حوا کی بیٹی کو وہ عزت بخشی ہے جو اس سے پہلے کبھی ا سے حاصل نہ تھی۔ اس نے معاشرے میں اس کا سر بلند کیا ہے، ۔ کتاب الہی میں انسانی ضروریات کے تحت جو تحفظ انہیں عطا کیا ہوا ہے نزول قرآن سے قبل کبھی اسے حاصل نہ ہوا۔ قرآن پاک مجید میں ارشاد پروردگار ہوتا ہے۔
وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلنَاهم فِی البَرِّ وَالبَحرِ وَرَزَقنَاهم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلنَاهم عَلَی کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً۔
ترجمہ :ہم نے اولاد آدم کو عزت دی۔ خشکی و سمندر کو ان کی جولان گاہ بنایا، پاکیزہ نعمتیں ان کے لیے مہیا کیں اور بہت ساری مخلوقات پر انہیں نمایاں فضیلت عطا کی۔
واقعہ کربلا میں خواتین کا کردار
واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر مولا امام حسین علیہ السلام کے با وفا ،بہادرفرزندان اور اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جس کو انسانیت کی تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، لیکن دین اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ مقصد واقعہ کربلا کو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے میں خواتین کربلا کے کئی بے نظیر ولاثانی کردار ہیں۔یہاں پر یہ جملہ لکھا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ حادثہ کربلا میں اگر یہ عظیم خواتین نہ ہوتیں تو حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد قربانی ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سید الشہدا علیہ السلام نے بہت سے اصحاب کباررضی اللہ عنہم کے مشورے کے برخلاف اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کے لیے نمونہ خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔کربلا کی ان بہادرخواتین نے اپنی عمل سے ثابت کردکھایا کہ نواسہ رسول علیہ السلام کربلا میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔
کربلا کا واقعہ صرف عراق کی سر زمین کربلا میں ہونیوالا ایک واقعہ نہیں ہے ،بلکہ کربلا ایک تحریک، ایک حقیقت ،ایک مشن اور ایک مقصد کانام ہے کیونکہ خامس آل عبا علیہ السلام کی اس عظیم تحریک کاآغاز 28رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک محرم الحرام کو عصر عاشورا کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ ام المصائب ،ثانی زہرا جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور بیمار کربلا ،سید السجاد،زین العابدین حضرت امام علی ابن الحسین علیہما السلام کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق،جابر اور ظالم حکمرانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس انقلاب کی صدا پورے شرق و غرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی اگر جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجاد علیہ السلام کے خطبات نہ ہوتے تو کربلا، کربلا میں ہی رہ جاتی۔