نجف کے علماء کے کئی ٹولے تھے، ان میں سے جو کچھ متدین اور متعہد تھے، انہوں نے تو امام خمینی (رح) کے عراق آنے پر خوشی کا اظہار کیا اور ان کے شانہ بشانہ ساتھ دینے کا عہد کرلیا، جبکہ دوسرا ٹولہ منفی فکر والے افراد پر مشتمل تھا، یہ لوگ قدامت پرست اور خانقاہی فکر کے مالک تھے، لہذا انہوں نے امام (رح) کے راستے کو غلط تصور کیا اور ان کے ذہنوں میں وہی استعماری فکر حاکم تھی کہ دین سیاست سے جدا ہے اور دین کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں، اور مولویوں کا ایک تیسرا ٹولہ بھی تھا که جو نہ راضی تھا نہ ناراض۔ بلکہ یہ بھی امام (رح) کو اس مہم سے بعض رہنے کی سفارش کیا کرتے تھے۔ لہذا آخری دو گروپس نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر پوری کوشش کی کہ امام (رح) کو ان کی راہ سے ہٹادیا جائے۔
اس پروپیگنڈا کا یہ نتیجہ نکلا کہ عراق کی فضا بھی امام (رح) کے مخالف سمت، چلنے لگی اور امام (رح) جتنا عرصہ بھی عراق میں رہے، ایک بے وطن کی طرح رہے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ آپ نے ایک خونخوار اور ظالم تنظیمی کے خلاف تقریر کی تو اس کا بھی عوام کے درمیان کوئی اثر دکھائی نہ دیا، شاید، اس ظالم تنظیمی کی ساری عمر میں یہ پہلی تقریر تھی جو علنا امام (رح) نے ان پر اعتراضات کی ایک پوری فہرست ترتیب دی۔ لیکن اس حاکم فضا کی وجہ سے امام (رح) کی یہ بات لوگوں تک نہ پہنچ سکی۔ امام (رح) بعض اوقات اس کے بارے میں کہا کرتے تھے:
"مجھے واقعا اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اس حاکم فضا کے ساتھ کیا کروں؟ اگر میں اس جنایت کار تنظیم (بعث) کے خلاف قیام کرتا ہوں تو تمام لوگ میرے خلاف یک زبان ہوکر کہنے لگتے ہیں: اس شخص نے پہلے قم کے حالات خراب کئے ہیں اور اب نجف کے حالات خراب کرنے آگیا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرے کہ جس سے یہ حوزہ بھی بند ہوجائے۔ اور اگر میں سکوت اختیار کرتا ہوں اور انہیں کچھ نہیں کہتا تو یہ کہتے ہیں کہ آخر کیا ہوگیا ہے کہ انہوں نے شاہ ایران کے خلاف تو قیام کیا لیکن اس تنظیم (بعث) کے خلاف خاموش ہے۔ اور اگر ان کو مسالمت اور نصیحت کے ساتھ سیدھے راستے پر لگانے کی کوشش کروں تو پھر یہ کہتے ہیں: اب یہاں پر ان کے طریقہ میں تبدیلی آگئی کہ وہاں پر تو شاہ کے خلاف، سخت سخت تقریریں، اور پمفلٹ لیکن اس ظالم حکومت کے ساتھ نرمی؟"