آج تو ایران پر کالی گھٹائیں چھا گئیں / گُلشنِ تہران پر ویرانیاں سی آگئیں
آج دینِ حق کا رہبر اس جہاں سے اٹھ گیا / پاسبان مذہب و ملت یہاں سے اٹھ گیا
آج دُنیائے مسلماں ہوگئی ہے سوگوار / آج ایرانی ہوئے ہیں غم گسار و دل فگار
آج روح اللہ خمینی ہوگئے ہم سے جُدا / آج تو ایران میں بس ہوگیا محشر بپا
پیکرِ جرات خمینی، قافلہ سالارِ عشق / باغبانِ گلشنِ اسلام، نکہت بارِ عشق
جو لباسِ سادہ میں تھا مست، وہ گوشہ نشیں / جس کی باتیں روح پرور، گداز و دلنشیں
پاک طینت، پاک سیرت، اہل ایماں کے لئے / مُرشدِ کامل تھا، دنیاے مسلماں کے لئے
کس قدر تھا جرات و ہمت کا مالک وہ جری / بادشاہت ختم کرکے دم لیا ایسا جری
قیسر و کسری کی صورت توڑ ڈالے سب غرور / بادشاہت کو مٹا کر پالیا جس نے سرور
جس نے جمہوری نظامِ نو کی ڈالی ہے بنا / دورِ استبداد کو جس نے مٹا کر رکھ دیا
اہل ایران کو کیا ہے کامران اور سربلند / پس رہے تھے جو مصائب میں ہوئے ہیں سربلند
اے خمینی؛ ولولہ انگیز تقریریں تیری / روح جس نے قوم کے جسموں میں گویا پھونک دی
تُو فقیہِ اہلِ ایماں، مجتہد، عالی دماغ / تُو وہ شمعِ نُور جس سے ہوگئے روشن چراغ
چل پڑی ہے قوم ایراں سب ہدایت پر تری / ان کو حاصل ہوگئی اسلام میں پھر برتری
تو وہ سرچشمہ ہدایت کا نہیں جس کا جواب / پاؤں میں لغزش نہ جس کے آئی ایسا کامیاب
وہ تیری تاریخ سازی اور وہ تیرا انقلاب / رہتی دنیا تک رہے گا یہ نرالا انقلاب
مغربی اقوام کو جس نے سبق سکھلا دیا / اہل ایماں کا ہے کتنا دبدبہ دکھلا دیا
ایسے دنیا میں کہاں پیدا امیرِ باعمل / جو تیرے اقوال تھے، بس تھا وہی تیرا عمل
رہبرانِ گلشن اسلام پائیں گے سکوں / حوصلے ہوجائیں گے سب اہل ایماں کے فزوں
اے خمینی تیری عظمت، تیری سیرت کو سلام / انقلابی روح کو اور تیری سطوت کو سلام
اے خدا آسانیاں کرے خمینی کے لئے / سارے در کھل جائیں جنت کے خمینی کے لئے