اے قلم قافلہ فکر و نظر قید میں ہے
منزلیں پا بہ رسن گویا سفر قید میں ہے
منجمد اشک ہوئے دیدہ تر قید میں ہے
قریہ قریہ ہی نہیں سارا نگر قید میں ہے
ایک محشر ہے تلاطم ہے مناجاتیں ہیں
دن مقدر میں نہیں اب تو فقط راتیں ہیں
رات ایسی رمق سحر نہیں ہے جس میں
خون دل خون جگر دیدہ نم ہے اس میں
اس کی پروردہ ہیں جہال کی ستر قسمیں
ان کو آئینہ دکھا جائے یہ دم ہے کس میں
آدمیت! خجل شیوہ شیطانی ہے
خون انسان کا پانی سے بھی ارزانی ہے
ایسے ماحول میں ایک شیر نیستان اٹھا
وارث دبدبہ ملک سلیمان اٹھا
حیدری عزم لئے وقت کا انسان اٹھا
ہند کا بیج شجر بن کے از ایران اٹھا
اصفہان و قم و مشہد سے ضیا پھوٹ پڑی
سارے عالم سے خمینی کی صدا آنے لگی
وقت نے ہوش کے ماتھے کی لکیریں چومیں
پھر مدینہ نے نجف والی جبینیں چومیں
خواب بیدار ہوئے نیند نے نیندیں چومیں
ابن حیدر کے کف پا کی زمینیں چومیں
رہنما! ظلم کے لشکر کو مسل ڈالےگا
یہ خمینی ہے زمانے کو بدل ڈالےگا
گرد شیشہ پہ پڑی تھی جو سبھی پاک ہوئی
یعنی ایراں کی زمیں نور سے سیراب ہوئی
سطوت شاہی اسیر دم گرداب ہوئی
فارسی باعث حیرانی اعراب ہوئی
حرف حق! شمع شریعت سے ضیاء بار ہوا
ملک سلمان علی والوں سے گلزار ہوا
ہاں اسی مرد دلاور کے ہیں رہبر نائب
جیسے بعد شہ ذیشان تھے حیدر نائب
یوں تو دنیا نے تراشے ہیں معمر نائب
پر کہاں کوئی ہے حیدر کے برابر نائب
سید خامنہ ای! نائب امر صمدی کہتے ہیں
ہم اسے اپنی زبانوں میں علی کہتے ہیں
سید لیاقت علی – ہندوستان
۷ فروری ۲۰۱۸ء