کرن مزاج لب بام آگیا ہے کوئی
جہاں پہ صورت خورشید چھا گیا ہے کوئی
گریز پا ہیں سبھی ظلمتوں کے سوداگر
خدا کے نور کا جلوہ دکھا گیا ہے کوئی
جہاں سے زادِسفر لیتی ہے نسیم سحر
کچھ ایسی شان کی بستی بسا گیا ہے کوئی
رچی بسی ہے فضاؤں میں آگہی کی مہک
یہاں علوم کے دریا بہا گیا ہے کوئی
کڑے پہر کی تمازت میں بھی صبا کا چلن
خود اپنی جاں سے گذر کر سکھا گیا ہے کوئی
خودی گنوائے ہوئے خستہ جاں مریضوں کو
شراب جاں پئے درماں پلا گیا ہے کوئی
ملا کے خاک میں تخت و غرورِ شاہی کو
خدا کے نام کا سکہ بٹھا گیا ہے کوئی
بجھائے آتش نمرود کو خلیل نسب
کلیم سا ید بیضا دکھا گیا ہے کوئی
کبھی نہ ہم ہوں معاصر یزید سے غافل
دکھا کے راہ شہِ کربلا گیا ہے کوئی
نشانِ راہ کی تائید بھی ہے خوشبو بھی
ابھی ابھی اسی رستے چلا گیا ہے کوئی
حسینیت کا ثمر ہے خمینیت نادم
یہ میرے کان میں آکر بتا گیا ہے کوئی
نادم شگری – بلتستان، پاکستان
7 فروری 2018ء - اسلامی انقلاب ایران کی ۳۹ویں سالگرہ کے موقع پر