اے مقصدِ حسینی کے پاسباں خمینی / ڈربا ہے تیرے غم میں سارا جہاں خمینی
عہد رواں ہی کیا ہے ہر دور کی زبانیں / کرتی رہیں گی پیہم ترابیاں خمینی
خود بوریہ نشیں تھا شاہوں کا سر جھکایا / تجھ سانہ مل سکے گا گلاب حکمراں خمینی
بات آئی جو لبوں تک بن کر رہی حقیقت / تھی سچ میں کتنی سچی تیری زباں خمینی
جو اپنی جان دے کر تو نے کیا روانہ / چلتا رہے گا ہر دم وہ کارواں خمینی
کیسے نہ اپنے دل میں اہلِ جہاں بسائیں / انسانیت کا تو تھا روح رواں خمینی
ہر اہل غم کے دل کی اب تو یہی صدا ہے / پائیں گے تم کو آخر اب ہم کہاں خمینی