مقصود جعفری
یہ کون چمن سے آج اٹھا
ہر سمت اداسی چھائی ہے
آسوئے خدا اے بندہ حق
آواز فلک سے آتی ہے
یہ مرد قلندر کیسا تھا
کردار کی جس کی ہیبت سے
گفتار کی جس کی شوکت سے
دنیائے ستم برباد ہوئی
اک طرز نئی ایجاد ہوئی
دریائے ستم کا شور مٹا
اور مغرب کا بھی زور مٹا
اسلام کے ڈنکے بجنے لگے
انصاف کے ایوان سجنے لگے
شاہی کی کمر بھی ٹوٹ گئی
زردار بھی نذرِ خاک ہوئے
مظلوم کی دادرسی کے لئے
بس نامِ خمینی کافی ہے
افسوس وہ ہم میں آج نہیں
لیکن یہ ہمارا ایماں ہے
جو نقشِ وفا وہ چھوڑ گیا
تا حشر رہے گا دنیا میں