امام راحل خمینی کبیر (رح) کے کلام میں تزکیہ و اصلاح نفس کا امر، تعلیم پر تقدم اور فوقیت رکھنے کی بحث، دینی اور اسلامی منابع سے مأخوذ ہے۔
علم و دانش کو دو مختلف زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے:
نگاہ اول: علم، ایک ذاتی فضیلت ہے؛ ہماری اسلامی تعلمیات میں بہت سے مباحث اسی زاویہ کی جانب معطوف ہیں۔ جیسے دانا اور نادان شخص برابر نہیں، صرف اہل علم خوفِ خدا رکھتے ہیں، علم نور ہے اور اللہ تعالی جسے چاہے عطا کرتا ہے، اہل علم سے عہد و پیمان لیا گیا ہےکہ وہ ظالموں کی عیش و عشرت اور مظلوموں کی بھوک و پیاس کے مقابلہ میں ہرگز خاموش نہ رہیں ...
اس نقطہ نظر سے اصلاح و تزکیہ نفس اور علم میں جدائی ممکن نہیں اور علم کی تعریف، تربیت کی جانب لوٹتی ہے۔
دوسرا زاویہ نگاہ: جو عصر جدید کا پیداوار ہے؛ علم و دانش طاقت، دولت، شہرت اور کرسی اقتدار کےلئے وسیلہ اور منشأ ہے۔
اس نقطہ نظر سے علم اور تزکیہ دونوں جمع نہیں ہوسکتے اور تزکیہ سے خالی علم، فرد کےلئے تکبر، غرور اور دوسروں کی تحقیر کا ذریعہ اور قومی سطح پر ظلم، بربریت اور جارحیت اور عالمی سطح پر استکبار و استعمار پر ختم ہوتا ہے۔
امام راحل خمینی کبیر (رح) کے کلام میں تزکیہ و اصلاح نفس کا امر، تعلیم پر تقدم اور فوقیت رکھنے کی بحث، دینی اور اسلامی منابع سے مأخوذ ہے۔
آپ ملت اور ملک کی پیشرفت اور کمال کے منازل طے کرنے میں یونیورسٹی کے خاص کردار کے قائل اور اس پر بہت اہمیت دیتے تھے، چنانچہ انقلاب کی کامیابی سے سالوں قبل اور اسلامی انقلاب تحریک کے ابتدائی دور میں جب پہلوی حکومت کی جانب سے اسلامی یونیورسٹی تأسیس کا حکم صادر ہوا، امام نے اپنے شفاف، مضبوط اور قاطع موقف کے ذریعے اور ایسی یونیورسٹی کی تأسیس کو امیرالمؤمنین (ع) کے مقابلہ میں قرآن کریم نیزہ پر اٹھانے سے تشبیہ دےکر ان کے مذموم عزائم اور سازشوں سے پردہ اٹھایا۔
آپ کالج و یونیورسٹی کے طالب علموں کو معاشرے کی سیاسی حیات میں اہم تأثیرگزار عنصر جانتے تھے اور ملک کے سیاسی میدان میں دگرگونی ایجاد کرنے میں طالب علموں کےلئے بنیادی کردار کے معتقد تھے۔ اسی لئے ہمیشہ ان کو غاصب حاکم اور نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دیتے تھے اور اسلامی تحریک کو آگے بڑھانے اور عوام کو حالات بدلنے میں مدد دینا، استعمار اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں کو فاش کرنا ان کی اہم ذمہ داریان قلمداد کرتے تھے۔
صحیفہ امام؛ ج9، ص232 ملاحظہ کیجئے۔
انقلاب کی کامیابی اور جمہوری اسلامی کی تأسیس کے بعد بھی یونیورسٹی اور یونیورسٹی والے، پیر جماران کی نظر میں تأثیرگزار مقام کے حامل تھے گویا آپ یونیورسٹی کو انسان سازی کےلئے ایک اہم مرجع جانتے تھے اور معتقد تھےکہ طالب علموں کو یونیوڑسٹی میں فن و مہارت اور ایمان دونوں حوالوں سے تربیت دینی چاہیئے تاکہ ایک پڑھا لکھا طبقہ کے عنوان سے اجتماع کو بصیرت بچشنے کی بوجھ کو اپنے کاندھو پر اٹھائیں اور اس میدان میں کامیابی صرف اس وقت ممکن ہےکہ وہ اپنے علم و دانش کو الہٰی اور اسلامی اقدار کی راہ میں صرف کریں اور خود کو معاشرے کے دیگر صنفوں اور خاص کر روحانیون سے الگ تھلگ نہ کریں۔
صحیفہ امام ج3، ص 32۵ – 32۶؛ و ج۶ ص1۵8