ابوالحسن علی بن موسی الرضا (ع) جو "امام رضا" کے نام سے مشہور ہیں، شیعہ اثنا عشریہ کے آٹھویں امام ہیں۔
عباسی خلافت کے دوران، مامون عباسی نے آپ (ع) کو مدینہ سے زبردستی خراسان لے آیا اور اپنی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا؛ ابتداء میں امام (ع) نے انکار کیا لیکن جبر عباسی کی بنا پر امام علیہ السلام نے مشروط طور پر مامون کی بات قبول کر لی۔ امام (ع) نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمایا جو "حدیث سلسلۃ الذہب" کے نام سے مشہور ہے۔ مامون اور عباسیوں نے اپنے خاص مقاصد کی خاطر مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ، آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین، آپ (ع) کی فضیلت کے معترف ہوئے نتیجتاً عباسی خلافت کو پے درپے شکست کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ آپ (ع) 20 سال تک امامت کے عہدے پر فائز رہے اور آخرکار ۵۵ سال کی عمر میں ایران کے شہر "طوس" میں مامون کے ہاتھوں بذریعہ زہریلے انگور، شہید ہوئے۔ آپ (ع) کا مرقد مطہر، اسلامی جمہوریہ ایران کے شہر "مشہد مقدس" میں موجود ہے جہاں سالانہ لاکھوں افراد زیارت کےلئے آتے ہیں اور رحمت رحمانیہ سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
طبرسی جس کا ہنر صرف تاریخی روایتیں جمع کرنا ہے؛ انتہائی نامہربانی انداز میں مختصر سی عبارت میں لکھتا ہےکہ "مأمون نے کچھ عرصہ اپنے باپ ہارون کی قبر کے پاس قیام کیا، علی ابن موسیٰ نے انگور زیادہ کھالیے اور اچانک فوت ہوگئے"!! اگرچہ طبرسی کی یہ فکر و عبارت قابل غور اور قابل مذمت ہیں لیکن مختصر تحلیلی نگاہ سے اس عبارت کو ہم دیکھتے ہیں:
کیا واقعاً مأمون اس قدر باپ سے محبت کرتا تھا کہ اس بُحرانی صورتحال میں ہارون کی قبر کے پاس ٹھہرنا اس کےلئے اہمیت رکھتا تھا؟ یا مثلاً وہ چاہتا تھا کہ باپ کی روح سے مدد لے اور اپنے معنوی استحکام کا ذخیرہ بنائے تاکہ بغداد سفر کرکے وہاں کے مخدوش حالات پر قابو پاسکے؟!
کیا انہیں دنوں میں علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام، وہ مردِ خدا کہ جس نے اپنے زمانے کے تمام علماء و متکلمین کو مغلوب کرکے ثابت کردیا تھا کہ عالمِ آل محمد کس کو کہتے ہیں اور سب لوگ، حضرت کو اس زمانے کی زاہد ترین، حکیم ترین اور قابلِ قبول ترین بزرگوار شخصیت کے عنوان سے جاننے پہچاننے لگے تھے؛ وہ (نعوذ باللہ) ایک ناسمجھ بچے یا ایک پر خور شخص کی طرح انگور کھانے میں اس قدر زیادہ روی کریں کہ حتی اچانک اسی وجہ سے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیں !!!
طبرسی مزید لکھتا ہےکہ "مأمون نے علی بن موسیٰ کی رحلت کے بعد عباسیوں اور بغداد نشینوں کو خط لکھے جن میں آنحضرت کی رحلت کی ان سب کو اطلاع دی"۔
درحقیقت، ان جملات میں مأمون کے اہداف کی گہری ترجمانی دیکھنے میں آ رہی ہے، کیونکہ وہ بغداد کیطرف سفر کرنے سے پہلے اس کوشش میں ہےکہ بغداد میں حالات خراب کرنے والے عناصر کو تسکین خاطر دے سکے اور انہیں مطمئن کرکے اعتماد میں لے سکے اور اس طرح سے مأمون کے بغداد کو سفر اور حالات پر قابو پالینے کا میدان ہموار ہو جاتا ہے۔
ابا الحسن، امام علی ابن موسیٰ الرضا (ع) کی شہادت
امام ہفتم، حضرت امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام، طولانی زندانوں اور شدیدترین شکنجوں کے اثر سے سندی بن شاہک ملعون کے زندان میں شہید ہوئے اور ظالم و جابر خلیفہ ہارون کوشش کررہا تھا کہ اس معصوم امام (ع) کی مظلومانہ شہادت کو طبیعی موت کا رنگ دے سکے، ظالم و ستمگر باپ کے راستے کا راہی مأمون خلیفہ بھی اپنے باپ کی روش پر چلتا ہے اور کوشش کرتا ہےکہ اتنے سنگین ظلم کو چھپانے میں کامیاب ہوسکے اور یہ ظاہر کرسکے کہ ولیعہد، طبیعی موت، مرے ہیں!!
یہی وجہ ہےکہ بعض چاپلوس تاریخ دان، انگور کھانے کو اور بعض طبیعی موت کو اور بعض عباسیوں کی سازشوں اور بدخواہیوں کو غریب امام علیہ السلام کی شہادت کے اسباب رقم کرتے ہیں اور ایک گروہ جو اس غریب امام کا خالص ماننے والا گروہ "شیعہ اثنی عشری" ہے اس کا فیصلہ اور قضاوت یہ ہےکہ براہ راست خود مأمون نے حضرت کو مسموم کرکے شہید کیا۔
پہلا نظریہ بالکل وزن نہیں رکھتا کیونکہ اس میں کوشش کی گئی ہےکہ مأمون کے جرم کو چھپانے کے ساتھ ساتھ، ایک معصوم امام کی شخصیت کو بھی مخدوش کر دیا جائے۔ انصاف سے دیکھا جائےکہ جو شخصیت خود حکیم ہو، دوسروں کو صحت و سلامتی اور تندرستی کے سنہرے اصولوں کی تعلیم دے، کیسے ممکن ہےکہ وہ خود ابتدائی اصولوں پر بھی کار بند نہ ہو!! ظاہر ہےکہ ایسا اظہار جہالت و نادانی، لالچ و غرض یا دشمنی و عداوت کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے۔
نظریہ دوئم کے حوالے سے ابن جوزی، احمد امین اور یعقوبی جیسوں نے اپنی تحریروں میں یہ ظاہر کیا ہےکہ امام، بیمار ہوگئے اور اس بیماری کے اثر سے طوس میں طبیعی طور پر وفات پاگئے"۔
ابن جوزی، یعقوبی اور احمد امین کے تأثرات انکے خیالات، عقائد و نظریات کے حق و حقیقت سے دور ہونے اور عناد و بعض رکھنے پر دلالت کرتے ہیں۔
بہرحال ائمہ علیہم السلام کے عصر سے نزدیک کے علماء کے آثار میں غور و فکر کرنے اور مختلف روایات پر توجہ سے مندرجہ بالا مؤرخین کا نظریہ، قابل قبول نہیں ہے لہٰذا وہ حقیقت جو حدیث شناسوں اور غیر متعصب تاریخ نگاروں کے نزدیک قابلِ قبول ہے اور روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں، یہی ہےکہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت مسموم (زہر بھرے) انگور یا انار کے ذریعے ہوئی۔
احمد امین، حضرت کی طبیعی وفات کا قائل ہونے کے بعد لکھتا ہےکہ "قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا ہےکہ اگر حضرت کو مسموم کیا گیا ہو، مأمون کے علاوہ کسی اور فرد یا افراد کے ذریعے مسموم کیا گیا ہوگا"!!
اس تاریخ نگار نے امام علیہ السلام کی شہادت کا احتمال قبول کیا ہے، اگرچہ خلیفہ کو بےگناہ اور لا تعلق ظاہر کرنے میں اس نے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
علامہ سید محسن امین، حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں مختلف آراء و نظریات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
میرا نظریہ یہ ہےکہ اگرچہ طوس میں داخلے کے وقت امام علیہ السلام کی طبیعت قدرے سازگار نہیں تھی لیکن خلیفہ نے اس فرصت اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت (ع) کو مسموم کردیا کیونکہ خلیفہ کو معلوم ہوچکا تھا کہ بغداد میں ولایت عہدی کی خبر پھیلنے کے بعد، اہل بغداد نے ابراہیم بن مہدی کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور اس نے بھانپ لیا تھا کہ اس کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور اس کی نظر میں فضل بن سہل اور اسی طرح امام علیہ السلام کاوجود حالات کے بہتر ہونے میں رکاوٹ ہے، لہٰذا اس نے فضل بن سہل کو قتل کروا دیا اور کچھ مدت ہی گذرنے کے بعد، امام علیہ السلام کو بھی زہر دے کر شہید کردیا۔
اس بات کی حقیقت پر کہ امام علیہ السلام کی شہادت مأمون کے ہاتھوں ہوئی، شواہد و قرائن میں سے ایک اہم قرینہ یہ بھی ہےکہ شہادت کے اسی دن لوگوں نے اجتماع کیا اور سب کا عقیدہ یہی تھا کہ مأمون خلیفہ نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کیا ہے۔
اس بات کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہےکہ امام علیہ السلام کے زمانے کے لوگ اس وقت کے حالات اور مأمون کی سیاست کو دوسرے زمانوں کے لوگوں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھتے تھے لہٰذا جب وہ لوگ اس عقیدے پر تھےکہ امام علیہ السلام کو مسموم اور شہید کیا گیا ہے تو وہ ساری صورتحال کو مدنظر رکھے ہوئے تھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے ابو بصیر نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا:
ایک دن میرے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر بن عبد اللہ انصاری کو بلایا اور فرمایا:
"یا جابر! اَخبِرني عَنِ اللَّوحِ الَّذِي رَأَیتَه في يَدِ امّي فَاطِمَة" اے جابر! اس لوح کے بارے میں مجھے بتاؤ جو تم نے میری ماں فاطمہ زہرا (س) کے دستِ مبارک میں دیکھی۔
جابر نے کہا: حضرت امام حسین بن علی(ع) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد عرض کرنے کےلئے آپ کی ماں فاطمہ زہراء(س) کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت کے دست مبارک میں سبز رنگ کی ایک لوح دیکھی جو زمرّد سے بنی ہوئی لگ رہی تھی، میں نے اُس لوح کے بارے میں حضرت سے سوال کیا، انہوں نے میرے جواب میں فرمایا: یہ لوح خداوند متعال کیطرف سے میرے والد بزرگوار کےلئے ہدیہ ہے جس میں میرے والد بزرگوار، میرا نامدار شوہر اور میری اولاد سے آنے والے آئمہ (ع) کے اسماء گرامی تحریر ہیں۔ میرے والد بزرگوار نے مجھے خوش کرنے کےلئے بشارت کے طور پر یہ لوح مجھے دی ہے، اس لوح کے ایک حصے کی تحریر میں جو آٹھویں امام علیہ السلام سے متعلق ہے، یوں ذکر ہے:
"یقتله عفریت مستکبر" یعنی اُنہیں ایک قدرت طلب و مستکبر عفریت [شیطان] شہید کرےگا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:" خدا کی قسم! ہم سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو شہادت کے بغیر دنیا سے جائے" حضرت سے سوال کیا گیا: آپ کو کون شہید کرےگا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:" میرے زمانے کا بدترین شخص مجھے زہر دےکر شہید کرےگا"۔
آخری دفعہ، امام رضا علیہ السلام نے اَباصَلت ہروی کے سامنے فرمایا:
اِس وقت میرا اللہ تعالی کیطرف واپس لوٹنے کا موقع آن پہنچا ہے؛ اب وہ وقت آگیا ہےکہ میں اپنے جد بزرگوار رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت پہنچوں؛ اس طاغوت (سرکش خلیفہ) نے ارادہ کرلیا ہےکہ مجھے زہرآلود انگور کے ذریعے شہید کردے"۔
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے سالِ شہادت کے معيّن ہونے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں لیکن مشہور قول کے مطابق، حضرت (ع) کا سالِ شہادت ۲۰۳ ھ۔ق ہے اور شیخ کلینیؒ نے اسی قول کو درست شمار کیا ہے اور مسعودی نے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔
آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
التماس دعا