رسول خدا (ص) کے دسویں جانشین ،شیعوں کے آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا (ع)11/ذی القعدہ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کا مشہورترین لقب رضا ہےجس کے بارے میں بعض ماخذ کا کہنا ہے کہ رضا کا لقب مامون نے دیا ہے جبکہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ امام جواد (ع) کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ یہ لقب آپ کو خدا کی طرف سے آپ کے والد گرامی امام موسی کاظم (ع) کو دیا گیا تھا کہ اس مولود مسعود کا لقب رضا ہو اور آپ کے دیگر القاب میں صابر ،رضی اور وفی ہےنیزآپ عالم آل محمد سے بھی مشہور ہیں -منقول ہے کہ امام موسی کاظم (ع)اپنے بچوں سے کہا کرتے تھے:تمہارا بھائی علی بن موسی الرضا(ع)عالم آل محمد ہیں –
آپ کی مدت امامت 20/سال ہے -مامون عباسی زبردستی آپ کو مدینہ سے خراسان لایا تھا اور اپنا ولی عہد بنایا تھا -نیشابور میں آپ کی بیان کردہ حدیث سلسلہ الذہب مشہور ہے-مامون عباسی نے آپ کے اور دیگر ادیان ومذاہب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مناظرہ کرایا ہے اور آپ کو نمایاں کامیابی ملی ہے اور یہی چیز دیگر ادیان ومذاہب کے علما اور دانشوروں پر فضیلت اور برتری کا باعث ہوئی ۔
امام رضا (ع)اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے سن184/ھ ق میں منصب امامت پر فائز ہوئے اورمرجع عوام وخواص بن گئے -آپ کا 20/سالہ دور امامت تین ظالم وجابر سلاطین کے زمانہ میں گزرا ہے 10/سال ہارون کے دور میں 5/سال ہارون کے بیٹے امین کے دور حکومت میں اور 5/سال مامون کے دور میں، امام کاظم (ع)کی شہادت کے بعد آپ کے اکثر شیعوں اور چاہنے والوں نے آپ کی وصیت اور دیگر دلائل،شواہد اور قرائن کی روشنی میں آپ کے فرزند ارجمند امام رئوف علی بن موسی الرضا کو اپنا امام، پیشوااور رہبر مان لیا اور آپ کی امامت کے قائل ہوگئے اور آٹھویں امام اور رسول خدا کے دسویں خلیفہ اور جانشین کے عنوان سے تائید بھی کی۔ امام رضا (ع) کا دور امامت تقریبا 17/سال (183/سے200/یا 201)تک مدینہ ہی میں گزرا ہے -آپ لوگوں کے درمیان خاص علمی اور اخلاقی اہمیت اور اعتبار کے حامل تھے جس کی تائید خود امام علی بن موسی الرضا (ع) نے ولی عہدی کے سلسلہ میں مامون سے گفتگو کے موقع پر کی ہے "ولی عہدی سے میری فضیلت اور میرے مقام میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہےکیونکہ میں جب مدینہ میں تھاتو مشرق ومغرب میں میرا حکم چلتا اور فرمان نافذ ہوتا تھااور جب میں سواری پر سوار ہوکر مدینہ کے گلی کوچہ سے گزرتا تھاتومجھ سے عزیز تر شخص کوئی نہیں ہوتا تھا " امام اپنے علمی مقام و مرتبہ کے بارے میں خود ہی فرماتے ہیں:میں مسجد پیغمبر میں بیٹھتاتھا اور جب مدینہ کے دانشور کسی مسئلہ میں حیران اور لاجواب ہو جاتے تھےتو سارے کے سارے میری طرف رجوع کرنے کا حکم دیتےاور پاس اپنے مسائل کا جواب دریافت کرنے کے لئے بھیجتے تھے تو میں ان کا جواب دیتا تھا یعنی آپ بتانا چاہتے ہیں کہ مامون تیری دی ہوئی ولیعہدی میرے فضل وشرف میں اضافہ نہیں کرسکتی میں جہاں رہوں صاحب فضل وشرف ہوں۔
امام علی بن موسی الرضا (ع)کی جانگداز شہادت
اکثر علماء اور مورخین نے ذکر کیا ہے کہ امام رضا (ع)کی شہادت صفر کے مہینہ سن203ھ ق کو ہوئی ہے اور بعض ماخذ کی روشنی میں 30/صفر سن 203ھ ق ہے آپ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی وجہ سے شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک کے بارے میں دقیق کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن مشہور 30/صفرسن 203ھ ق ہی ہے اس وقت آپ کی عمر 55/سال تھی –
صلوات خاصہ حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع)
اَللّـهُمَّ صَلِّ عَلى عَلِیِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا الْمُرْتَضَى الاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ وَحُجَّتِکَ عَلى مَنْ فَوْقَ الاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرى، الصِّدّیقِ الشَّهیدِ، صَلاةً کَثیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً، کَاَفْضَلِ ما صَلَّیْتَ عَلى اَحَد مِنْ اَوْلِیائِکَ