اس دَور کا شہباز تھا روح اللہ خمینی
افلاک کی پرواز تھا رُوح اللہ خمینی
یہ اپنے اب و جد کی صداقت کی نشانی
سرچشمہ اعجاز تھا روح اللہ خمینی
اس دور نے بڑھ کر اسے لبیک کہا ہے
اس دَور کی آواز تھا روح اللہ خمینی
ماضی کی طرف مُڑ گئے حالات کے دھارے
تاریخ کا دمساز تھا روح اللہ خمینی
اس عصر کا بے خوف و خطر مرد سپاہی
بے باک تھا جانباز روح اللہ خمینی
طاغوت کی آندھی میں کبھی جُھک نہ سکا وہ
دنیا میں سرفراز تھا روح اللہ خمینی
یزداں کا صحیفہ تھا یا قرآن کی صداقت
جو کھل نہ سکا راز تھا روح اللہ خمینی
ذہنوں میں اُبھرتا ہے ولایت کا تصور
اسلاف کا انداز تھا روح اللہ خمینی
کیوں اہرمن عہد رہیں اس سے نہ لرزاں
یزداں کا ہم آواز تھا روح اللہ خمینی
ذہن اس کا رسولوں کے تدبر ہے مزین
ولیوں کی تگ و تاز تھا روح اللہ خمینی
رکھتا تھا یہ مولا کی مشیت کا سہارا
بے حرص تھا بے آز تھا روح اللہ خمینی
نقطہ بھی یہی تھا سرِ مرکز بھی یہی تھا
انجام تھا آغاز تھا روح اللہ خمینی
ہے عالمِ اسلام کا یہ خرمن ِ محفوظ
صدیوں سے پس انداز تھا روح اللہ خمینی
جاذب یہ ہر اِک معرکہ سر کرکے گیا ہے
کیا غازی سرباز تھا روح اللہ خمینی
شاعر: شعیب جاذب ۔ پاکستان